امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے، امریکی صدر نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایئر فورس جنرل سی کیو براؤن سمیت 5 دیگر ایڈمرلز اور جرنلز کو بھی عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ سی کیو براؤن کی جگہ سابق لیفٹیننٹ جنرل ڈین ’رازن‘ کین کو نامزد کریں گے، جو روایت کو توڑتے ہوئے پہلی بار ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو اعلیٰ فوجی افسر بنائیں گے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی بحریہ کے سربراہی بھی بدلنے جا رہے ہیں، یہ عہدہ اس وقت ایڈمرل لیزا فرنچیٹی کے پاس ہے، جو فوجی سروس کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے ایڈوکیٹ جنرلز کو بھی ہٹا رہے ہیں، جو فوجی انصاف کے نفاذ کو یقینی بنانے والے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ جو پہلے ہی سویلین عملے کی بڑے پیمانے پر برطرفیوں، اپنے بجٹ میں ڈرامائی تبدیلی اور نئی امریکی فرسٹ خارجہ پالیسی کے تحت فوجی تعیناتیوں میں تبدیلی کی تیاری کر رہے تھے، کے اس فیصلے سے پینٹاگون میں ہلچل شروع ہو گئی ہے۔
اگرچہ پینٹاگون کی سویلین قیادت ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کے دور میں تبدیل ہوتی ہے، لیکن امریکی مسلح افواج کے وردی والے افسران غیر سیاسی ہوتے ہیں، جو ڈیموکریٹک اور ریپبلکن انتظامیہ کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
سی کیو براؤن صدر کے اعلیٰ وردی میں فوجی مشیر بننے والے دوسرے سیاہ فام افسر تھے اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ستمبر 2027 میں اپنی 4 سالہ مدت پوری کریں گے۔ ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ کیو براؤن کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اس سے قبل کہ سینیٹ ان کے جانشین کی تعیناتی کی منظوری دے۔
نومبر میں ایک برطانوی خبر رساں ادارے نے سب سے پہلے یہ خبر دی تھی کہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ نے براؤن سمیت اعلیٰ عہدے داروں کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ڈیموکریٹک قانون سازوں نے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں سرفہرست ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جیک ریڈ کا کہنا ہے کہ فوجی افسران کو سیاسی وفاداری کے امتحان کے طور پر یا صنفی بنیاد پر برطرف کرنا جس کا کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس اعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت کو ختم کرتا ہے جو ہمارے فوجیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے درکار ہوتا ہے۔