یوکرین پر روس کے حملے کی تیسری برسی کے موقع پر اقوام متحدہ میں پیش کردہ قراردادوں پر ہونے والی ووٹنگ میں امریکا نے 2 بار روس کا ساتھ دیا ہے، جس کے بعد جنگ کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے مؤقف میں تبدیلی والی قرارداد کو بھی منظور کر لیا گیا ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جلد یوکرین جنگ کے خاتمے کی امید ظاہر کی ہے۔
اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ کے دوران سب سے پہلے دونوں ممالک نے ماسکو کے اقدامات کی مذمت اور یوکرین کی علاقائی سالمیت کی حمایت کرنے والی یورپی یونین کی قرارداد کی مخالفت کی، اس قرارداد کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) نے منظور کیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیار کردہ قرارداد کی حمایت کی جس میں تنازع کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اس میں روس کی کوئی مذمت یا اس پر کوئی تنقید نہیں کی گئی تھی۔
سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کر لی گئی ہے لیکن امریکا کے 2 اہم اتحادیوں برطانیہ اور فرانس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا کیونکہ ان کے الفاظ میں ترمیم کی کوششوں کو ویٹو کر دیا گیا تھا۔ مسابقتی قراردادیں اس وقت پیش کی گئیں جب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تاکہ جنگ کے بارے میں ان کے شدید اختلافات کو دور کیا جاسکے۔ جمعرات کو برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر بھی امریکی صدر سے ملاقات کریں گے۔
عالمی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے سے ٹرانس اٹلانٹک اتحاد ختم ہو چکا ہے، امریکا نے ماسکو کی حمایت کی ہے اور یورپی سلامتی کے لیے امریکا کے طویل المدتی عزم پر شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 رکنی اجلاس کے فلور پر پیر کو امریکی سفارتکاروں نے روس یوکرین تنازع کے دوران ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
یورپی سفارت کاروں نے مزید تفصیلی متن پیش کیا ، جس میں روس کو یوکرین پر حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اور یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کی گئی۔ یوکرین کی نائب وزیر خارجہ ماریانا بیتسا نے کہا کہ ہمیں اس بات کی دوبارہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہے کہ جارحیت کی مذمت کی جانی چاہیے اور اس کی بیخ کنی کی جانی چاہیے نہ کہ انعام دیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان نے 93 ووٹوں سے یورپی قرارداد کی حمایت کی لیکن غیر معمولی طور پر امریکا نے اس میں حصہ نہیں لیا بلکہ اس کے خلاف ووٹ دیا، روس، اسرائیل، شمالی کوریا، سوڈان، بیلاروس، ہنگری اور 11 دیگر ممالک نے 65 ووٹوں کے ساتھ اس کی مخالفت کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی امریکی قرارداد منظور کی لیکن اس میں ترمیم کے بعد ہی یوکرین کی حمایت کرنے والے الفاظ کو شامل کیا گیا، جس کی وجہ سے امریکا غیر ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جس کے 15 ارکان ہیں، میں امریکا کی قرارداد 10 ووٹوں سے منظور کی گئی، جس میں برطانیہ، فرانس، ڈنمارک، یونان اور سلووینیا نے حصہ نہیں لیا۔ اقوام متحدہ میں امریکا کی قائم مقام مندوب ڈوروتھی کیملی شیا نے امریکی قرارداد کو ایک سادہ تاریخی بیان قرار دیا، جس کا کوئی سر یا پیر نظر آتا، انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی سادہ سی قرارداد ہے جس میں صرف اور صرف جنگ کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل شاذ و نادر ہی امریکا کا اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اتنا اختلاف رہا ہے۔ روس کی جانب سے 3 سال قبل یوکرین پر حملے کے بعد سے سلامتی کونسل میں روس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو گیا تھا جو اس کے 5 مستقل ارکان میں سے ایک ہے اور اسے کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جنگ پر بحث کا مرکزی فورم رہا ہے لیکن اس کی قراردادیں سلامتی کونسل کے برعکس رکن ممالک کے لیے قانونی طور پر پابند نہیں ہیں۔