نئے ٹیکسز نہیں لگائیں گے، حکومتِ پاکستان ڈٹ گئی، آئی ایم ایف کو دوٹوک جواب

نئے ٹیکسز نہیں لگائیں گے، حکومتِ پاکستان ڈٹ گئی، آئی ایم ایف کو دوٹوک جواب

حکومت پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اضافی ٹیکس عائد نہیں کرے گی بلکہ متوقع محصولات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قانونی اور انتظامی اقدامات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ 

ہفتہ کے روز میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے بھی متضاد مؤقف پیش کیا، جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) پر ریلیف کا مطالبہ کیا جبکہ ساتھ ہی بجلی کے بلوں پر نیا مالیاتی سرچارج لگانے کی تجویز بھی پیش کی۔

واضح رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ اور حکومت پاکستان کے درمیان تکنیکی بات چیت مکمل ہونے کے بعد پالیسی سطح کے باضابطہ مذاکرات 10 مارچ سے شروع ہوں گے، جہاں آئی ایم ایف پاکستان کی تجاویز کا باضابطہ جواب دے گا۔

میڈیا رپورٹس کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پہلے ہی یہ دلیل دیتے ہوئے کہ اس طرح کے ریلیف سے محصولات کی وصولی متاثر ہوگی، بجلی پر جی ایس ٹی کو کم کرنے یا ختم کرنے کی حکومت کی درخواست کو مسترد کر چکا ہے۔

تاہم آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے آئندہ 5 سال کے لیے بجلی کے بلوں پر 2.83 روپے فی یونٹ اضافی سرچارج عائد کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا تاکہ گردشی قرضوں کے ایک حصے کو کلیئر کرنے کے لیے 1.2 ٹریلین روپے کے قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے۔

یہ نیا سرچارج موجودہ 1.47 روپے فی یونٹ فنانسنگ لاگت میں اضافہ کرے گا جو اس وقت صارفین کو ماضی کے قرضوں کی وجہ سے برداشت کرنا پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود یہ اقدام مؤثر طور پر بجلی کے شعبے میں نااہلیوں کے باعث مالی بوجھ صارفین پر ڈال دے گا۔

آئی ایم ایف نے موسم سرما کے ٹیرف پیکج میں توسیع کی حکومت کی درخواست کو بھی مسترد کردیا، جس میں اضافی صنعتی اور تجارتی کھپت کے لیے بجلی کے نرخ کم کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔

دریں اثنا حکام نے آئی ایم ایف کو سولر نیٹ میٹرنگ ٹیرف 26 روپے فی یونٹ سے کم کرکے 10 روپے کرنے کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ اگرچہ یہ تبدیلی صارفین کو آف گرڈ حل کی طرف جانے سے روک سکتی ہے لیکن حکام نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ وہ صورتحال کی نگرانی کریں گے اور اگر ضروری ہوا تو اس کے مطابق جواب دیں گے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *