سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کونوکری کے اہل قراردیدیا

سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کونوکری کے اہل قراردیدیا

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی  سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں اور شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے اس موقع پردلیل دی کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسی کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازم کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جاسکتیں اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے جبکہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ خاتون کو نوکری دے کر آپ نے فارغ کیسے کر دیا؟ ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ خاتون کی شادی ہو چکی ہے اور والد کی جگہ نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ بیٹی کی شادی ہو جائے تو وہ والد کے انتقال کے بعد نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی؟اے جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ کے پی سول سروس ایکٹ کے تحت نوٹیفیکیشن کے ذریعے خاتون کو نکالا ہے۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اب کیا ایک سیکشن افسر قانون کی خودساختہ تشریح کرے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ خواتین کی معاشی خودمختاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تفصیلی فیصلہ دیں گے،عدالت نے والد کی جگہ بیٹی کونوکری کے اہل قراردیدیاعدالت نے درخواست گزار خاتون زاہدہ پروین کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *