روس اور یوکرین امریکا کی ثالثی میں بحرہ اسود میں سمندری آمد و رفت اور ایک دوسرے کی توانائی کی تنصیبات پر حملے نہ کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ امریکا نے منگل کے روز یوکرین اور روس کے ساتھ الگ الگ معاہدوں پر اتفاق کیا ہے تاکہ سمندر اور توانائی کے اہداف کے خلاف اپنے حملوں کو روکا جا سکے۔
روس نے منگل کی رات دیر گئے کہا کہ اس نے امریکا کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ روس اور یوکرین دونوں میں توانائی کے اہداف پر حملوں کو 18 مارچ سے 30 دن کے لیے روک دیا جائے گا اور یہ کہ روس معاہدے میں توسیع کے لیے بھی تیار ہے۔
یوکرین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ باضابطہ معاہدے کے بعد ہی اس طرح کی محدود جنگ بندی کو قبول کرے گا۔ روس نے یوکرین کے پاور گرڈ کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا اور کیف نے روسی تیل اور گیس کے اہداف پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملے کیے جو ایک دوسرے کی جنگی کوششوں کو کمزور کرنے کے لیے جنگ کا ایک اہم پہلو بن گئے ہیں۔
کیف اقوام متحدہ کی ثالثی میں بحیرہ اسود کے جہاز رانی کے معاہدے کے خاتمے کے باوجود اپنی بندرگاہوں کو دوبارہ کھولنے اور جنگ سے قبل کی سطح پر برآمدات کو دوبارہ شروع کرنے میں کامیاب رہا ہے، لیکن اس کی بندرگاہیں باقاعدگی سے فضائی حملوں کی زد میں رہی ہیں۔ ولادیمیر زیلینسکی نے کہا کہ معاہدہ اس طرح کے حملوں کو روک دے گا۔
یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے کہا کہ کیف بحیرہ اسود کے مشرقی حصے سے باہر روسی فوجی جہازوں کی کسی بھی نقل و حرکت کو خلاف ورزی اور خطرہ تصور کرے گا، اس صورت میں یوکرین کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہوگا۔
ماسکو کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت روس کے زرعی برآمدی بینک اور سوئفٹ بین الاقوامی ادائیگیوں کے نظام کے درمیان روابط بحال کرنے سمیت پابندیوں میں نرمی کی ضرورت ہوگی اور دیگر اقدامات کے لیے یورپی ممالک سے معاہدے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ بحیرہ اسود کی سمندری سلامتی کے معاہدے کب اور کیسے شروع ہوں گے ، لیکن یہ معاہدے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف برداری کے بعد دونوں متحارب فریقوں کی طرف سے پہلے باضابطہ وعدوں کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ یوکرین میں جنگ کے خاتمے اور ماسکو کے ساتھ تیزی سے مفاہمت پر زور دے رہے ہیں جس نے کیف اور یورپی ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
روس کے ساتھ امریکا کا معاہدہ یوکرین کے ساتھ معاہدے سے کہیں آگے ہے، واشنگٹن نے روسی زراعت اور کھاد کی برآمدات پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے میں مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے، جو روس کا دیرینہ مطالبہ ہے۔
امریکی اعلانات کے فوراً بعد روس نے کہا تھا کہ بحیرہ اسود کے معاہدے اس وقت تک نافذ العمل نہیں ہوں گے جب تک کچھ روسی بینکوں اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کے درمیان روابط بحال نہیں ہو جاتے۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلینسکی نے کہا ہے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات ہے کہ جنگ بندی کے معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے پابندیوں میں نرمی کی ضرورت نہیں ہے اور ان پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
ولادمیرزیلینسکی نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ ’وہ پہلے ہی معاہدوں کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور درحقیقت وہ ہمارے ثالثوں اور پوری دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں۔ کیف اور ماسکو دونوں نے کہا کہ وہ ان معاہدوں کو نافذ کرنے کے لیے واشنگٹن پر انحصار کریں گے، جبکہ ایک دوسرے کے خلاف شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا گیا کہ دوسرا فریق ان کی پاسداری کرے گا یا نہیں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ صرف کیف کے ساتھ معاہدوں کے افسوسناک تجربے کو دیکھتے ہوئے ہمیں واضح ضمانتوں کی ضرورت ہوگی۔ ادھر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ اگر روس نے ان قوانین کی خلاف ورزی کی تو وہ ٹرمپ سے ماسکو پر اضافی پابندیاں عائد کرنے اور یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کے لیے کہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں روسیوں پر کوئی اعتماد نہیں ہے، لیکن ہم تعمیری رہیں گے۔ ان اعلانات کے چند گھنٹوں بعد روس اور یوکرین دونوں نے ایک دوسرے پر ڈرون حملے کرنے کا الزام عائد کیا تھا لیکن بحیرہ اسود یا توانائی کے اہداف پر فوری طور پر حملوں کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہیں۔
دریں اثنا ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوز میکس کے ساتھ ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ روس جنگ کے خاتمے میں تاخیر کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں روس اس کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہے ۔
جنگ بندی کے وسیع تر امکانات
یہ معاہدے سعودی عرب میں متوازی مذاکرات کے بعد طے پائے تھے جس کے بعد گزشتہ ہفتے ٹرمپ اور دونوں صدور زیلنسکی اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الگ الگ فون کالز ہوئی تھیں۔ اگر ان معاہدوں پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو یہ یوکرین میں جنگ میں زیادہ جامع جنگ بندی کے حصول کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہدف کی جانب پہلا اہم قدم ہو سکتا ہے جس کا آغاز روس نے 3 سال قبل اپنے مکمل حملے سے کیا تھا۔
ولادیمیر پیوٹن نے ٹرمپ کی 30 روز تک مکمل جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر دیا، جس کی یوکرین نے پہلے توثیق کی تھی۔