وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آ چکا ہے، عیدالفطر پر لوگوں نے 870 ارب روپے کے اخراجات کیے، پنشن اصلاحات اور نجکاری پر تیزی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
ہفتہ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ترسیلات زر، زرمبادلہ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ترسیلات زر کا 36 ارب ڈالر ہدف حاصل کریں گے، معاشی استحکام انٹرنیشنل ٹریڈ کے حوالے سے بہت ضروری ہے، برآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح 2.9 فیصد دہائیوں کی کم ترین شرح ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مہنگائی میں کمی کا فائدہ شہریوں تک پہنچائیں، گزشتہ ہفتے 51 میں سے 26 اشیا کی قیمتیں کم ہوئی، ہم صوبوں کے ساتھ ملکر اشیا کی قیمتیں کم کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ چکا ہے، شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش باقی ہے، سرمایہ کاروں اور کاروبای حضرات کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، ملک میں فارن ڈائریکٹ انوسمنٹ بھی جلد آئے گی، معیشت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے سروے مثبت رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں نئے سرمایہ کار آ رہے ہیں، عید کے دوران بھی معاشی ایکٹیویٹی بڑھی ہے، عید الفطر کے موقع پر 870 ارب روپے کے اخراجات کیے ہیں، گزشتہ سال عید پر 720 ارب کے اخراجات کیے گئے تھے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں مشینری کی امپورٹ میں 16فیصد اضافہ ہوا، ملک میں زراعت، مائننگ، صنعت کی مشینری امپورٹ کی گئی، رواں مالی سال معاشی گروتھ 3 فیصد رہنے کا امکان ہے، کچھ دن قبل آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کے تمام بینچ مارکس پورے کیے، ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کی ماہانہ بنیادوں پر نگرانی کی جا رہی ہے، آئی ایم ایف کے اگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو 1 ارب ڈالر ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کلائمیٹ فنانسنگ پر بھی بات چیت کامیاب رہی، آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام پاکستان کا پروگرام ہے، ہمیں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت ہے، ہم نے جو مشکل فیصلے کرنے تھے وہ ماضی میں نہیں کیے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی استحکام پاکستان میں پہلے بھی آ چکا ہے، جون کے آخر تک ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 10.6 فیصد حاصل کر لیں گے، گزشتہ سال ریوینیو میں 29 فیصد اضافہ ہوا، رواں سال ٹیکس ریوینیو میں 32.5 فیصد اضافہ ہوا، نئے ٹیکس فائلرز سے 105 ارب روپے حاصل کیے گئے، رواں سال تاجروں سے 413 ارب روپے حاصل کیے گئے۔
وزیر خزانہ کے مطابق ہم ٹیکس بیس کو بڑھانے میں درست سمت میں جا رہے ہیں، ہم نے ایف بی آر میں بہتر طریقے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، تنخواہ دار طبقے کے لیے گوشوارے جمع کرانے کا عمل آسان بنائیں گے، تنخواہدار طبقہ کنسلٹنٹس کے بغیر گھر بیٹھ کر ٹیکس فائل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ پیچیدہ نظام کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے، بجلی قیمتوں میں کمی ایک بہت بڑی بات ہے، توانائی شعبے میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، پرائیویٹائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے، 24 ادارے نجکاری کے لیے نجکاری کمیشن کے حوالے کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا راونڈ ٹو رواں ماہ ہونے کا امکان ہے، سرکاری اداروں کی وجہ سے سالانہ 800 سے ہزار ارب کا نقصان ہوتا ہے، وزارتوں اور اداروں کی رائٹ سائزنگ کے لیے کام جاری ہے۔ پینشن اصلاحات کا عمل ملک میں پہلی بار شروع ہو چکا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ سرکاری قرضوں میں کمی لائی جا رہی ہے، قرضوں میں سود کی ادائیگی میں 1 ٹریلین کی کمی آئے گی، ہر شعبے کو اپنی ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہو گا، ایف ڈی آئی میں لوکل انوسٹرز کو مشکلات کا سامنا ہے، ہائی ٹیکسز، ہائی فنانسنگ لاگت، بجلی کی قیمتیں انسٹمنٹ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا کوئی وفد اس وقت پاکستان نہیں آیا، اس وقت ہم بجٹ تجاویز اور سفارشات کا جائزہ لے رہے ہیں، آئی ایم ایف کا وفد مئی میں پاکستان آئے گا، امریکا ہمارا ایک بہترین اسٹریٹیجک پارٹنر ہے، امریکا ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق وزیراعظم نے امریکی ٹیرف معاملے پر 2 کمیٹیاں بنائی ہیں، سیکرٹری کامرس کی زیر صدارت ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے، ہم امریکا کے ٹیرف کو چیلنج اور آپرچونیٹی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ہم امریکا کے ساتھ ٹیرف مذاکرات پر بھی غور کر رہے ہیں، وزیراعظم کی منظوری سے ہائی لیول وفد امریکا جائے گا۔ امریکا کے ساتھ ٹریڈ پیکج کے حصول پر کام کر رہے ہیں۔ہم امریکی ٹیرف سے ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔