افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی اسلحے نے دہشتگرد تنظیموں کی صلاحیت بڑھادی، امریکی اخبار کی رپورٹ

افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی اسلحے نے دہشتگرد تنظیموں کی صلاحیت بڑھادی، امریکی اخبار کی رپورٹ

امریکی اخبار نے پاکستان میں ہونیوالے دہشتگردوں کے حملوں میں امریکی اسلحہ استعمال ہونے کے پاکستانی دعوے کی تصدیق کر دی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی اسلحے نے دہشتگرد تنظیموں کی صلاحیت بڑھا دی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیاکہ بولان حملے میں استعمال ہونیوالی رائفل افغانستان میں امریکی فوج کیلئے تیار کی گئی تھی۔ ایم فور اے ون کا ربائن رائفل کنیٹیکٹ کے کولٹ مینوفیکچرنگ پلانٹ میں تیار کی گئی تھی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی رائفل کی تصاویر بھی ویب سائٹ پر جاری کر دیں۔ دہشتگردوں کے زیرِ استعمال جدید رائفل اورنائٹ ویژن گوگل افغان فورسز کو دیے گئے تھے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکری تنظیمیں پاکستان میں حملوں کیلئے امریکی اسلحہ استعمال کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں عوام نے فتنہ الخوراج کے دو حملوں کو ناکام بنادیا

واضح رہے کہ 11 مارچ کو دہشتگردوں نے پشاور جانے والی جافر ایکسپریس پر حملہ کیا، جس میں 440 مسافر سوار تھے۔ دو روزہ آپریشن کے بعد سیکیورٹی فورسز نے 33 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ حملے کے مقام سے برآمد شدہ ایم 4 رائفل کا سیریل نمبر امریکی فوج کو بھیجے گئے اسلحے سے میل کھاتا ہے، جو 2021 میں انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یہ اسلحہ پاکستانی شدت پسند گروہوں، جیسے تحریک طالبان پاکستان (TTP)، کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ پاکستانی حکام نے امریکی اسلحے کے سیریل نمبرز فراہم کیے، جن میں سے کم از کم دو ہتھیار افغان سکیورٹی فورسز کو دیے گئے امریکی ذخیرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ایک بار اسلحہ افغان حکومت کو فراہم کر دیا جائے تو اس کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی ہے۔

تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ امریکہ نے 2021 تک افغان افواج کو 7 ارب ڈالر سے زائد کا فوجی سازوسامان دیا، جس میں سے ایک بڑی مقدار طالبان کے قبضے میں چلی گئی۔ اس اسلحے میں جدید نائٹ وژن آلات، مشین گنز، اور ہیوی ویپنز شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکی اسلحہ اب پاکستانی سرحدی علاقوں کی اسلحہ منڈیوں میں کھلے عام فروخت ہو رہا ہے اور شدت پسند گروہ انہی ہتھیاروں سے پاکستانی فورسز پر حملے کر رہے ہیں، جس سے خطے میں سلامتی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *