پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کا خیال تھا کہ وائٹ ہاؤس سے آنے والی ایک کال اڈیالہ جیل میں قید ان کے رہنما کی قسمت بدل سکتی ہے لیکن اب پی ٹی آئی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اب عمران خان کے لیے امریکی امداد کا کوئی امکان نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کے لیے جو لائف لائن بنائی جا رہی ہے وہ کم از کم فی الحال تو سامنے نہیں آ رہی ہے۔
کئی مہینوں سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے حامی اس امید میں جکڑے ہوئے تھے کہ امریکی انتظامیہ میں تبدیلی ان کے رہنما کی قسمت میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ سوشل میڈیا ایسے خیالات سے گونج اٹھا، جس نے اس خیال کو ہوا دی کہ وائٹ ہاؤس کی ایک کال سابق وزیر اعظم کی قسمت بدل سکتی ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور نئی امریکی قیادت کے درمیان حالیہ سفارتی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ توقعات حد سے زیادہ پرامید تھیں۔
مقامی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان کا نام امریکا کی فہرست میں بھی نہیں ہے۔ یہ دوٹوک بیان نہ صرف امریکی حکام کے ساتھ متعدد رابطوں کے بعد حکمران جماعت کے مزاج کا خلاصہ ہے بلکہ پی ٹی آئی کی امیدوں پر بھی ٹھنڈا پانی ڈالتا ہے کیونکہ واشنگٹن سے متوقع سیاسی نجات اس وقت افق پر کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر نے انکشاف کیا کہ یہ نقطہ نظر امریکی حکام کے ساتھ حالیہ بات چیت سے سامنے آیا، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی ہم منصبوں سے کہا کہ وہ عمران خان کی قید کے بارے میں سوشل میڈیا کے جوش و خروش کو نظر انداز کریں، انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر کوئی سرکاری تشویش نہیں اٹھائی گئی تھی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری حالیہ بات چیت میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ انہیں عمران خان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے شور کی بھی پرواہ نہ کریں، یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی سطح پر اٹھایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور انہیں متعدد سزاؤں اور قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ ان کی پارٹی اور حامیوں کی جانب سے پرجوش مہم کے باوجود امریکا نے مسلسل عدم مداخلت کا مؤقف برقرار رکھا ہے۔
رواں سال مارچ میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے دو بار اس مؤقف کا اعادہ کیا تھا۔ 19 مارچ کو ٹیمی بروس سے جب عمران خان کے گزشتہ 2 سال سے جیل میں بند ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دوسرے ملک کے اندرونی فریم ورک پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس سے قبل 6 مارچ کو میڈیا بریفنگ کے دوران جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عمران خان کی متوقع حمایت پر وضاحت طلب کی گئی تو ترجمان نے اس سوال کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اس کے باوجود یہ افواہیں گردش کرتی رہیں اور حالیہ دعوؤں میں امریکی وفد اور عمران خان کے درمیان ملاقات کے دعوے کیے گئے تاہم حکومت نے فوری طور پر اس دعوے کو مسترد کر دیا۔
عمران خان سے امریکا کے کسی نمائندے کی ملاقات نہیں ہوئی، عرفان صدیقی
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میں ان افواہوں کو سختی سے مسترد کرتا ہوں، عمران خان سے کوئی میٹنگ ہوئی نہ ہی کسی نے کوئی ملاقات کی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی طاقتور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی کوششوں میں مبینہ طور پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر عمران خان کی جلد رہائی یا سیاسی ہلچل کے بارے میں پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن رسمی چینل خاموش ہیں اور ان کے خلاف قانونی پریشانیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں۔
جنوری میں سابق حکمراں جماعت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں آخر کار گم شدہ چابی مل گئی ہے اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (سی او اے ایس) سید عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے دروازے کھل گئے ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے فوری طور پر اس ملاقات کی تردید کی گئی اور سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ جس اجلاس کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ خاص طور پر سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلایا گیا تھا اور کوئی علیحدہ ’خصوصی اجلاس‘ منعقد نہیں کیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا امداد کے حصول کے لیے امریکا کی طرف جھکاؤ خاص طور پر عمران خان کے ماضی کے بیانات کو دیکھتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے دور میں عمران خان نے واشنگٹن کی سرزنش کی تھی، خاص طور پر اس وقت جب ان کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ’غیر ملکی سازش‘ کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے امریکی حمایت کی توقع اس کے ماضی کے بیانیے کو کمزور کرتی ہے، لیکن یہ تضاد مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر ختم نہیں ہوا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اب تک امریکا نے عمران خان کی قید پر پردے کے پیچھے بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ اپنے معاملات میں علاقائی سلامتی، انسداد دہشتگردی تعاون اور معاشی استحکام کو ترجیح دیتا ہے، جس کا اظہار ٹیمی بروس نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’ہم افغانستان میں ایبے گیٹ پر 13 امریکی فوجیوں اور 160 سے زیادہ افغانوں کی ہلاکت کے ذمہ دار داعش- کے مبینہ کارکن اور منصوبہ ساز کی گرفتاری پر حکومت پاکستان کے شکر گزار ہیں‘۔
صدر ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے خطاب کے دوران اس گرفتاری کی تعریف بھی کی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ اور میں خاص طور پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس عفریت کی گرفتاری میں مدد کی۔