کرولین لیویٹ کے لباس پر امریکا اور چین کے درمیان نیا تنازع کھڑا ہو گیا

کرولین لیویٹ کے لباس پر امریکا اور چین کے درمیان نیا تنازع کھڑا ہو گیا

ایک چینی سفارت کار کی سوشل میڈیا پوسٹ نے اس وقت تنازع کھڑا کر دیا ہے جب اس نے دعویٰ کیا کہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولن لیویٹ ایک حالیہ عوامی تقریب میں مبینہ طور پر چین میں تیار کردہ لباس پہن کر آئیں۔

انڈونیشیا کے شہر ڈنپاسر میں عوامی جمہوریہ چین کے قونصل جنرل ژانگ ژی شینگ نے یہ دعویٰ پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کیا، جہاں انہوں نے 27 سالہ لیویٹ کی ایک تصویر شیئر کی، جس میں وہ سیاہ رنگ کے لیس کے ساتھ سرخ لباس میں ملبوس ہیں۔

اس تصویر کے ساتھ چینی مائیکرو بلاگنگ سائٹ ویبو کا اسکرین شاٹ بھی تھا جس میں ایک صارف نے الزام لگایا کہ یہ لیس چین کے شہر مابو میں واقع ایک فیکٹری میں تیار کی گئی تھی۔

ژانگ ژی شینگ نے پوسٹ میں لکھا کہ ’چین پر الزام لگانا امریکا کا کاروبار ہے اور چین کی مصنوعات خریدنا ان کی زندگی ہے،’ژانگ نے یہ پوسٹ 14 اپریل کو شیئر کی تھی۔ اس لباس پر لگی خوبصورت لیس کو ایک چینی کمپنی کے ایک ملازم نے اس کی کمپنی کی مصنوعات کے طور پر پہچانا تھا۔

چین کے سفارت کار کی اس پوسٹ کے بعد سے سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا، کچھ صارفین نے وائٹ ہاؤس کے معاون کا مذاق اڑایا ہے جبکہ دیگر نے چین کے سفیر کے دعوے کی اصل ہونے پر سوال اٹھایا ہے۔ لوئل نامی ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ منافقین بے نقاب ہو گئے ہیں جبکہ دوسرے نے سفارتی مہم کو ’سنہری موقع‘ قرار دیا ہے۔ کچھ صارفین نے لیویٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ لباس ممکنہ طور پر اصل ڈیزائن تھا اور بہت سے لگژری برانڈز چین کے مینوفیکچررز کے ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی چین نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعارف کرائے گئے متعدد اقتصادی اقدامات کے جواب میں امریکی درآمدات پر بھاری جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے حال ہی میں چین کی مصنوعات پر 145 فیصد تک محصولات عائد کر دیے تھے۔ تاہم بعد میں انہوں نے زیادہ تر ممالک کے لیے اپنی ٹیرف پالیسی بدل دی اور چین کو چھوڑ کر 75 سے زیادہ ممالک کے محصولات پر 90 دن کی مہلت دی تھی۔

بیجنگ نے امریکی محصولات سے متعلق نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بنایا، چین کے سرکاری میڈیا نے اس اقدام کو ’مذاق‘ قرار دیا اور واشنگٹن پر سیاسی مقاصد کے لیے تجارتی پالیسی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

امریکی ترجمان کے لباس سے متعلق اس تنازع نے جاری معاشی تنازع میں ایک نیا موڑ لے لیا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی حکام ممکنہ طور پر اسی ملک سے جزوی طور پر حاصل کردہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں جسے وہ معاشی طور پر سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے اس دعوے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ اس سال کے اوائل میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی سب سے کم عمر شخصیت بننے کی وجہ سے سرخیوں میں آنے والی لیویٹ نے اس معاملے پر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *