تاہم انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے کا مطلب تحریک کا خاتمے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’آج سے ہم صوبے میں عوامی رابطہ مہم شروع کرنے جا رہے ہیں‘ ’انہوں نے مزید کہا کہ بی این پی احتجاجی مظاہرے کرے گی اور ریلیاں نکالے گی تاکہ حکومت پر اپنے مطالبات تسلیم کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
بی این پی کے سربراہ نے مزید کہا کہ پہلے مرحلے میں پارٹی مستونگ، قلات، خضدار اور سوراب میں احتجاجی مظاہرے کرے گی۔
اختر مینگل نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں تربت، گوادر اور مکران میں عوامی اجتماعات اور احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے، تیسرے مرحلے میں نصیر آباد، جعفرآباد، ڈیرہ مراد جمالی اور صوبے کے دیگر شہروں میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔
انہوں نے حکومت کی جمہوری ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ عوام کی حکومت ہے جس نے تمام راستوں کو زبردستی بند کر دیا جاتا ہے؟
بی این پی سربراہ نے مزید کہا کہ متعدد وفود نے احتجاجی مقام کا دورہ کیا اور اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی، اپنی تجاویز پیش کیں لیکن پھر بھی کوئی معنی خیز نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے 20 روزہ احتجاج کے دوران سخت حالات میں ان کے ساتھ کھڑے رہنے والے عمائدین اور حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خطرات اور تنہائی کے باوجود عوام کی شرکت غیر متزلزل رہی ہے جس پر میں ان کا شکر گزار۔