عالمی بینک نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امیر ترین اور زیادہ آمدنی والے بزنس گروپوں پر زیادہ ٹیکس عائد کرکے زیادہ بہتر ٹیکس نظام اپنائے، زیادہ آمدنی والے افراد کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے والی چھوٹ کو بھی ختم کرے۔
ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ ’ساؤتھ ایشیا ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ، ٹیکسنگ ٹائمز‘ کے مطابق حکومت پاکستان انکم ٹیکس بریکٹس پر نظر ثانی کرکے اور سب سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے بزنس گروپوں کو اہم ٹیکس ذمہ داریوں کے تحت لاکر اپنی ٹیکس وصولی میں اضافہ کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے ٹیکس نظام کے بارے میں خدشات کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کی ٹیکس کی شرح اور آمدنی کی حد کی نسبتاً وسیع رینج اسے بہت سی دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر معیشتوں (ای ایم ڈی ایز) کے مقابلے میں زیادہ ابھرتی ہوئی معیشت بنا سکتی ہے۔
تاہم عالمی بینک نے متنبہ کیا کہ ملک میں ٹیکس میں اضافہ اوسط سے کم ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کے ٹیکس محصولات کا زیادہ تر حصہ اب بھی سست رفتار اقتصادی شعبوں سے وابستہ ہے۔
پاکستان کی محصولات کا انحصار زیادہ تر سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹیز پر ہے، جو انکم ٹیکس کے مقابلے میں کل آمدنی کا ایک بڑا حصہ بناتے ہیں۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ حکومت کو زرعی سرگرمیوں پر ٹیکس لگانے پر توجہ دینی چاہیے جو معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن غیر زرعی شعبوں کے مقابلے میں ان پر ہلکا ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔
عالمی بینک نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں کم ہے اور 2020 کے بعد سے محصولات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010-2019 کے دوران ملک کی ترقی کا تقریباً پانچواں حصہ ہونے کے باوجود خاص طور پر زرعی شعبہ کم آمدنی والے ٹیکس کی شرحوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
اقتصادی نمو کے لحاظ سے عالمی بینک نے مالی سال 2024-25 کے لیے 2.7 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ سال کے 2.5 فیصد سے زیادہ ہے۔ اگرچہ صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ملک کے زرعی شعبے نے تقریباً 2 دہائیوں میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ افراط زر کی شرح کم ہو رہی ہے اور مارچ 2023 کے وسط میں تقریباً 40 فیصد سے کم ہو کر مارچ 2025 تک 0.7 فیصد پر آ گئی ہے، جس سے کرنسی میں استحکام اور مجموعی طور پر مثبت مالی ماحول میں مدد ملی ہے۔
بہتر معاشی سرگرمیوں کے باوجود عالمی بینک نے زور دے کر کہا کہ محصولات میں اضافے اور ٹیکس وصولی کے نظام کو ہموار کرنے میں چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ رپورٹ میں ٹیکس انتظامیہ اور ٹیکس عملدرآمد کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ اصلاحات پر زور دیا گیا جو ملک کے طویل مدتی معاشی استحکام کو برقرار رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہوگا کہ آنے والی نسلیں مضبوط مالیاتی انفراسٹرکچر سے فائدہ اٹھائیں۔