خطرناک انٹیلی جنس معلومات ملنے کے بعد امریکا نے پاک بھارت کشیدگی میں مداخلت کی، سی این این کا انکشاف

خطرناک انٹیلی جنس معلومات ملنے کے بعد امریکا نے پاک بھارت کشیدگی میں مداخلت کی، سی این این کا انکشاف

امریکی ٹیلی ویژن سی این این نے انکشاف کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں نے بڑا انکشاف کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کے دوران امریکا کو خطرناک انٹیلی جنس معلومات موصول ہوئیں، جس پر نائب صدر جے ڈی وینس سمیت اعلیٰ عہدیداروں نے امریکی مداخلت کر کے سیز فائر کروایا۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کئی دنوں سے جاری کشیدگی کے بعد ایک بہت بڑے تصادم کے دہانے پر کھڑے تھے، تب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا کہ دونوں ممالک ’فوری اور مکمل جنگ بندی‘ پر متفق ہو گئے ہیں۔

سی این این کی رپورٹ میں انٹیلی جنس کی نوعیت کا انکشاف کیے بغیر اس کی حساسیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سینیئر امریکی حکام کا ایک کور گروپ بشمول نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ اور عبوری قومی سلامتی کے مشیر مارکو روبیو اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف سوسی ویلز صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔

سی این این کے مطابق جمعہ کی صبح انہیں انتہائی اہم اور خطرناک انٹیلی جنس معلومات موصول ہوئیں جس نے انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں مداخلت کرنے پر مجبور کیا۔

اس موقع پر نائب صدر جے ڈی وینس نے صدر ٹرمپ کو مجوزہ لائحہ عمل سے آگاہ کیا اور پھر دوپہر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی۔ عہدیداروں کے مطابق جے ڈی وینس نے بھارتی وزیراعظم نریندیر مودی کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس کا ماننا ہے کہ ہفتہ کے روز آخر میں ڈرامائی طور پرکشیدگی خطرناک حد تک بڑھنے خطرہ ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جے ڈی وینس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں اور کشیدگی میں کمی کے آپشنز پرغور کریں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان سے قبل امریکی مداخلت کی پس پردہ تفصیلات پہلے سامنے نہیں آئی تھیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کا ماننا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک بات چیت نہیں کر رہے ہیں اور انہیں میز پر واپس لانے کے لیے مداخلت کی ضرورت ہے۔ جے ڈی وینس نے نریندر مودی کو ایک ممکنہ آف ریمپ بھی پیش کیا جسے امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ پاکستان قبول کرے گا، حالانکہ اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔

اس کال کے بعد مارکو روبیو سمیت اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں نے رات بھر کام کیا اور بھارت اور پاکستان کے ہم منصبوں سے رابطہ کیا۔ مارکو روبیو منگل سے ہی اس تنازعے کو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ فون کالز سے واقف ایک اہلکار کے مطابق ’ اس وقت یہ واضح تھا کہ دونوں فریق بات چیت نہیں کر رہے تھے‘۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس ہفتے کے اوائل میں مقصد بھارت اور پاکستان کو براہ راست بات چیت کرنے پر راضی کرنا تھا اور اس بات چیت کے ذریعے امریکی حکام نے دونوں فریقوں کے لیے ممکنہ آف ریمپ کے بارے میں بریف کیا۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کے خلا کو پر کرنے میں مدد ملی اور دونوں فریق بالآخر ایک معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

عہدیداروں نے واضح کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ بندی کے معاہدے کے مسودے میں مدد نہیں کی لیکن اس کے کردار کو دونوں ممالک کے درمیان رابطے کو آسان بنانے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ اہم موڑ اس وقت آیا جب نائب صدر جے ڈی وینس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کیا، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں کا خیال تھا کہ نریندر مودی کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات ہیں، جو ان کے بھارت کے دورے اور پچھلے ماہ وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران مضبوط ہوئے تھے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جے ڈی وینس کی کال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک روز قبل انہوں نے اس تنازع میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں ہمارا کوئی کام نہیں ہے‘۔

وینس نے جمعرات کو فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم ان ممالک کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ وہ کشیدگی کو تھوڑا کم کریں، لیکن ہم ایسی جنگ کے درمیان میں شامل نہیں ہوں گے جو بنیادی طور پر ہمارا کام نہیں ہے اور اس کا امریکا کی اس پر قابو پانے کی صلاحیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکا بھارت کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتا نہ ہی پاکستانیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہہ سکتا ہے۔ لہٰذا ہم سفارتی ذرائع سے اس سلسلے کو ختم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

ہفتہ کے روز شدید لڑائی کے بعد سیز فائر پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ معاہدے کی نگرانی کیسے کی جائے گی اس بارے میں درست تفصیلات کو ابھی حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

ٹرمپ اور پاکستان جنگ بندی کا سہرا امریکی ثالثی کو دیتے ہیں جبکہ بھارت نے متضاد بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ براہ راست دو طرفہ معاہدہ تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت نے ‘مکمل اور سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔

اس کے کچھ ہی دیر بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک علیحدہ بیان میں معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں حکومتوں نے نہ صرف دشمنی کو روکنے کا عہد کیا ہے بلکہ غیر جانبدار مقام پر وسیع تر مسائل پر بات چیت شروع کرنے کا بھی عہد کیا ہے۔ روبیو نے مزید کہا کہ وہ اور جے ڈی وینس کے نائب صدر گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران دونوں ممالک کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں سرگرم عمل رہے ہیں۔

ان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور نریندر مودی، پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر، بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور عاصم ملک شامل تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے مذاکرات میں امریکی شمولیت کی تعریف کی جبکہ بھارت نے واشنگٹن کے کردار کو نظر انداز کیا۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کے اعلان کے 3 گھنٹے بعد ایکس پر لکھا ’ہم صدر ٹرمپ کی قیادت اور خطے میں امن کو فروغ دینے میں فعال کردار پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *