پاکستان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ دنیا غزہ پر مزید خاموشی اور بے عملی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ، بالخصوص فلسطینی مسئلے پر ہونے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران ایک پُرزور بیان میں، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ غزہ سے اٹھنے والی فریادوں کا مزید خاموشی سے جواب نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا مزید ایک دن کی بے عملی (Inaction) کی متحمل نہیں ہو سکتی، کیونکہ تاریخ ہمیں ہماری ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ “اور کتنے مظالم درکار ہوں گے تاکہ یہ کونسل وہ اقدام کرے جو اخلاقی، قانونی اور اقوام متحدہ کے منشور کے تحت درست ہے؟” سید عاصم افتخار نے کہا کہ “محض تشویش کے اظہار سے کام نہیں چلے گا۔ نسل کشی کو روکنے کا وقت آ گیا ہے، اور ہمیں اسرائیلی مظالم کو معمول کا حصہ بننے سے روکنا ہوگا — کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون اور انسانی وقار کی توہین ہو گی۔”
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ اگرچہ ضروری اقدامات جیسے فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی، اور شہریوں کا تحفظ واضح ہیں، لیکن سلامتی کونسل محض تماشائی نہیں بن سکتی۔ “یہ کونسل اپنے مینڈیٹ کے مطابق عمل کرے — محصور شہریوں کا تحفظ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری، اور مظلوموں کے حق میں آواز بنے،” انہوں نے زور دیا۔
انہوں نے کہا: “ہم سلامتی کونسل کے تمام ارکان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک مؤثر قرارداد کے ذریعے متحد ہو کر فوری اقدام کریں — نہ صرف موجودہ بحران کے حل کے لیے، بلکہ جون میں ہونے والی کانفرنس کے لیے ایک موزوں ماحول قائم کرنے اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ و پائیدار حل کی جانب پیش رفت کے لیے بھی۔”
سفیر عاصم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ”اب ابہام کی کوئی گنجائش نہیں رہی، فلسطینی عوام کی انسانی تکالیف کے لیے کوئی جواز نہیں۔ جی ہاں، بس بہت ہو چکا۔” پاکستانی سفیر عاصم نے واضح کیا کہ غزہ میں انسانی بحران: ناقابلِ برداشت المیہ ہے اوراپنی تقریر کے آغاز میں سفیر احمد نے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار سیگریڈ کاگ اور ڈاکٹر فیروز صدیقوا کی کربناک بریفنگز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں “غیرجانبدار، سچ پر مبنی، اور ذمہ دارانہ” قرار دیا۔
انہوں نے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر سمیت تمام اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام کی دیانت دارانہ خدمات کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی، اور ان پر کسی بھی غیر ضروری تنقید کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔ غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے سفیر عاصم نے کہا:”ہم ایک بار پھر غزہ میں ایک گہرے مگر قابلِ تدارک المیے کے سائے تلے جمع ہوئے ہیں — ایک ایسا المیہ جو نہ صرف ہمارے ضمیر کو بلکہ اس کونسل کی ساکھ کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ یہ بحران ایک انسان ساختہ تباہی ہے، جو اسرائیل کی طویل ناکہ بندی، اندھی بمباری، اور عام شہریوں پر مسلسل حملوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے حیران کن اعداد و شمار پیش کیے کہ 54,000 سے زائد فلسطینی — جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے — شہید ہو چکے ہیں، اور 122,000 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس المیے کو “ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ذہنی و جسمانی اذیت” قرار دیا۔
سفیر عاصم افتخار نے بحران کے درج ذیل چار اہم پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ طبی نظام کی تباہی: 800 سے زائد طبی سہولیات کو نشانہ بنایا گیا، اسپتالوں کے پاس بنیادی طبی سامان موجود نہیں، اور ایمبولینسز و طبی عملے کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قحط اور بھوک: کم از کم 57 بچے بھوک سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ سفیر کے مطابق قحط اب محض خطرہ نہیں بلکہ حقیقت بن چکا ہے۔ انسانی امدادی قافلوں کو یا تو روکا جا رہا ہے یا ان پر حملے ہو رہے ہیں۔ شہری انفراسٹرکچر کی منظم تباہی: 80 فیصد سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے، جبکہ پانی، بجلی، اور مواصلاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا: “یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔”
خواتین اور بچوں پر قیامت: 28,000 سے زائد خواتین اور بچیاں شہید ہو چکی ہیں، جبکہ 50,000 خواتین حاملہ ہیں، جن میں ہزاروں ایسی ہیں جو انتہائی غیر انسانی، غیر محفوظ اور غیر صحت مند حالات میں بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ سفیر نے مغربی کنارے میں بھی بگڑتی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا — جہاں گھروں کی مسماری، پرتشدد کارروائیاں، اور نقل و حرکت پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حکام کے اشتعال انگیز دوروں کی شدید مذمت کی اور متنبہ کیا کہ یہ اقدامات پورے خطے میں کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہیں۔