امریکا کا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا ہے۔ یہ وفد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں امریکا گیا تھا، جہاں اس نے اقوام متحدہ کے نمائندوں، امریکی کانگریس کے ارکان اور دیگر حکومتی شخصیات سے اہم ملاقاتیں کیں۔
لندن میں نجی ٹی وی ’’جیو نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے وفد کے رکن فیصل سبزواری نے بتایا کہ “ہم نے اقوام متحدہ سے اپنے دورے کا آغاز کیا اور پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ہم نے ثابت کیا کہ پاکستان امن کا داعی ہے، باوجود اس کے کہ ہمارے پاس دفاعی برتری ہے، ہم نے بات چیت کا راستہ اختیار کیا۔”
انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان جیسے دو ایٹمی ممالک خطرناک ماحول میں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھارت مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ بغیر ثبوت جارحیت کی اجازت ملے، جیسا کہ پلوامہ واقعے میں ہوا۔
فیصل سبزواری کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ اور ارکانِ پارلیمان کے سامنے پاکستان کے امن پر مبنی مؤقف کو خاصی پذیرائی ملی ہے، اور یہ بھارت کی سفارتی ناکامی جبکہ پاکستان کی کامیابی ہے۔
وفد کی رکن شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر مذاکرات اور امن کا خواہاں ہے، جبکہ بھارتی وفد نے صرف پاکستان پر الزام تراشی کو اپنا مقصد بنایا۔
خرم دستگیر خان نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکیوں کا تاثر یہ تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کرا دیا ہے اور مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، ہمارا مشن انہیں یہ باور کرانا تھا کہ بھارت نہ بات چیت چاہتا ہے، نہ غیر جانب دارانہ تحقیقات پر آمادہ ہے، لہٰذا عالمی برادری کی مداخلت ضروری ہے۔
بشریٰ انجم بٹ نے بتایا کہ پاکستانی وفد کو نیویارک اور واشنگٹن میں شاندار پذیرائی ملی، اور سندھ طاس معاہدے و مسئلہ کشمیر پر پاکستان نے اپنا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کیا۔