اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پیر کو بینچ مارک شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے تخمینہ لگایا ہے کہ معاشی بحالی آہستہ آہستہ رفتار پکڑ رہی ہے، جبکہ افراط زر میں کمی آئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ افراطِ زر میں حالیہ اضافہ اور مئی میں مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 3.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو بڑے پیمانے پر اندازوں کے عین مطابق ہے۔
مرکزی بینک نے کہا کہ کمیٹی کو توقع ہے کہ مستقبل قریب میں افراط زر میں اضافہ ہوگا اور مالی سال2026 کے دوران 5 سے 7 فیصد کے ہدف کے اندر استحکام آئے گا۔
اقتصادی سرگرمیوں کی مضبوطی کا اعتراف کرتے ہوئے ایم پی سی نے بیرونی شعبے کے لیے ممکنہ خطرات خاص طور پر تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے اور مالی بہاؤ میں کمی کی نشاندہی بھی کی۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال2026 کے بجٹ میں کچھ اقدامات سے درآمدی طلب میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے بیرونی اکاؤنٹ پر اضافی دباؤ پڑ سکتا ہے۔
ادھر ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے عبوری تخمینوں کے مطابق مالی سال 2025کے لیے حقیقی جی ڈی پی نمو 2.7 فیصد رہی، جس میں مالی سال کی دوسری ششماہی میں نمایاں تیزی آئی ہے۔ حکومت نے مالی سال 2026کے لیے 4.2 فیصد کی بلند شرح نمو کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ صنعتی اور خدمات کے شعبوں میں بہتری کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے جبکہ بڑی فصلوں کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے زراعت کی کارکردگی کمزور رہی ہے۔
کمیٹی نے نجی شعبے کو قرضوں میں اضافہ اور مشینری اور انٹرمیڈیٹ اشیاء کی زیادہ درآمدات جیسے ہائی فریکوئنسی انڈیکیٹرز کو بہتر بنانے کی طرف بھی اشارہ کیا۔
بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے باوجود اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ تقریباً متوازن رہا جس سے جولائی تا اپریل مالی سال2025 کے دوران مجموعی سرپلس 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
تاہم اسٹیٹ بینک نے خبردار کیا ہے کہ عالمی تجارتی رکاوٹوں، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور منصوبہ بند مالی بہاؤ میں ممکنہ تاخیر ہو سکتیہے۔