امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر پہلا براہ راست میزائل حملہ کر دیا۔
خبر ایجنسیوں کے مطابق ایران نے اسرائیل پر کم از کم 25 میزائل داغے جبکہ یروشلم اور تل ابیب میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور مختلف علاقوں میں ایئر ڈیفنس سائرن بج اٹھے۔ ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے ایرانی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ ’کچھ دیر قبل ایران سے اسرائیلی سرزمین پر میزائل فائر کیے گئے جنہیں روکنے کے لیے دفاعی نظام متحرک کر دیا گیا ہے، فوج نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں اور مزید اطلاع تک وہیں رہیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق ایران کی جانب سے داغے گئے میزائل نے تل ابیب کے رہائشی علاقے میں شدید تباہی مچا دی ہے۔ ایمرجنسی سروس ادارے میگن ڈیوڈ آدوم (ایم ڈی اے) کا کہنا ہے کہ حملے میں کئی دو منزلہ رہائشی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہو گئیں۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق مرکزی اسرائیل میں گرنے والے میزائل کے مقام پر بم ڈسپوزل یونٹس اور پولیس افسران تعینات کر دیے گئے ہیں۔ شمالی شہر حیفہ کے ایک سٹی اہلکار نے بھی شہر میں میزائل گرنے کی تصدیق کی ہے۔
یہ میزائل حملہ امریکا کی جانب سے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات پر فضائی کارروائی کے بعد ایران کی طرف سے جوابی کارروائی کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے بعد خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
آبنائے ہرمز بند کرنے کا اعلان
ایرانی میڈیا کے مطابق ایران نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے پیش نظر آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان کرتے خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین کا کوئی بھی بحری بیڑہ اب یورپ تک نہیں پہنچ سکے گا۔
ایران کا یہ حملہ امریکا کی جانب سے فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے فضائی حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔
ایرانی ایٹمی توانائی ادارے نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ’امریکا اب براہ راست جنگ میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا، امریکا تھوڑا انتظار کرے، اسے ہمارے حملوں کی قیمت چکانا پڑے گی۔‘
علاقائی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال ایک وسیع پیمانے کی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اسرائیل میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے اور خطے میں غیر معمولی فوجی نقل و حرکت جاری ہے۔