خیبر پختونخوا: غیر فعال سنٹرسی وی ای، محکمہ اعلیٰ تعلیم سے منتقل کرکے محکمہ داخلہ کے ماتحت کرنے کا فیصلہ

خیبر پختونخوا: غیر فعال سنٹرسی وی ای، محکمہ اعلیٰ تعلیم سے منتقل کرکے محکمہ داخلہ کے ماتحت کرنے کا فیصلہ

پرتشدد انتہا پسندی کے تدارک کے لیے قائم کیا گیا خیبرپختونخوا کا ادارہ “مرکز برائے انسدادِ پرتشدد انتہا پسندی (سی وی ای)” اپنے قیام کے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہاہے، مزکورہ ادارہ عملی طورپر غیر مؤثر ہو کر سرکاری خزانے پر بوجھ بن چکا ہے۔ تحقیق، تربیت، معلوماتی نیٹ ورک یا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقاضے، کسی بھی میدان میں ادارہ کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکا، جس کے بعد حکومت نے اسے محکمہ اعلیٰ تعلیم سے علیحدہ کرکے محکمہ داخلہ کے ماتحت کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے، جبکہ بورڈ آف گورنرز میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کو نائب سربراہ بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔

دستاویزات کے مطابق سی وی ای ادارہ جن ذمہ داریوں کے لیے قائم کیا گیا تھا، ان میں سے کسی ایک پر بھی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد اسے ’’صفر نتائج‘‘ کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق نہ تو کوئی تحقیقی منصوبہ شروع کیا گیا، نہ پالیسی سازی میں کردار ادا کیا گیا، اور نہ ہی معاشرے میں انتہا پسندی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی وضع کی گئی۔

سنٹر کی ذمہ داریوں میں تحقیقی سرگرمیاں بھی شامل ہیں، سنٹر کے قیام کا مقصد انسدادِ انتہا پسندی کے حوالے سے تحقیق تھا، مگر آج تک کوئی ریسرچ سامنے نہیں آئی، نہ ہی ریسرچرز کا ڈیٹا بینک سنٹر کے پاس موجود ہے۔ اسی طرح انسدادِ انتہا پسندی کے لیے کوئی جامع حکمت عملی نہ بن سکی، نہ ہی کوئی نظرثانی کا نظام موجود ہے۔ اہم ذمہ داریوں میں سے عملی منصوبہ بندی اور اثرات کا تجزیہ کرنا بھی ہے تاکہ حکومت کو پہلے سے آگاہی دی جائے لیکن اس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ ماہرین کی شمولیت بھی ان کا کام ہے لیکن صرف ڈونر فنکشنز میں ماہرین کو مدعو کیا گیا، بقیہ معاملات میں مکمل خاموشی ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے لیے فنی معاونت بھی ہے لیکن سنٹر کی جانب سے کوئی عملی مدد فراہم نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا 11سالہ اقتدار، خیبر پختونخوا 709 ارب روپے کا مقروض صوبہ بن گیا

انتہا پسندی سے متعلق معلومات کا حصول و ترسیل بھی ان کی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس ضمن میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، اسی طرح تربیت و نصاب کی فراہمی میں صرف ایک مرتبہ نئے ضم شدہ اضلاع میں تربیت کا اہتمام کیا گیا، لیکن کوئی تربیتی ماڈیول فراہم نہیں کیا گیا۔ ریسرچ فیلوشپس کرنا تاکہ طلبہ بھی اس سنٹر کا حصہ بنیں لیکن انسدادِ انتہا پسندی کے میدان میں فیلوشپس کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ معلوماتی نیٹ ورک کا قیام بھی اس سنٹر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق کوئی نیٹ ورک قائم نہ ہو سکا۔

رابطہ کرنے پر سنٹر کے چیف کوارڈنیشن افیسر ڈاکٹر ایاز نے بتایا کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی اسی طرح ایکٹ کا نفاذ ہوچکا ہے اور وہاں پر سنٹرز بھی محکمہ ہوم کے ماتحت ہے اس لئے خیبرپختونخوا میں بھی ہائیر ایجوکیشن ڈٰیپارٹمنٹ سے منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *