صیہونیت و ہندوتوا گٹھ جوڑ : قبضے، تشدد اور نسل کشی کی مشترکہ تاریخ

صیہونیت و ہندوتوا گٹھ جوڑ : قبضے، تشدد اور نسل کشی کی مشترکہ تاریخ

آزاد ریسرچ ڈیسک  : صیہونیت  اور ہندوتوا کا گٹھ جوڑ محض نظریاتی ہم آہنگی نہیں بلکہ عملی اشتراک ہے، جو قبضے، ریاستی تشدد اور اقلیتوں کے خلاف نسل کشی پر مبنی ایک مشترکہ تاریخ کی تشکیل کرتا ہے،  دونوں تحریکیں نسلی و مذہبی بالادستی کو بنیاد بنا کر جبر، بے دخلی اور نوآبادیاتی حکمتِ عملیوں کو فروغ دیتی ہیں۔

اسرائیل میں صیہونیت اور بھارت میں ہندوتوا محض مذہبی قوم پرستی نہیں، بلکہ ایسے بالادست، توسیع پسند اور عسکری نظریات ہیں جو نسلی اور ثقافتی برتری پر مبنی ہیں ،  ان نظریات نے زمین پر قبضے، جبری بے دخلی، نسل کشی، اور فوجی جارحیت کی منظم پالیسیوں کو جنم دیا ہے۔

ان کا مقصد یہ ہے کہ متنوع اور کثیرالمذہبی معاشروں کو ایک ہی مذہب و قوم پر مبنی ریاستوں میں تبدیل کر دیا جائے یعنی فلسطینیوں کو اسرائیل سے، اور مسلمانوں و عیسائیوں کو بھارت سے مٹا کر یا انہیں محکوم بنا دیا جائے۔

صیہونیت اور ہندوتوا یہ دونوں “تہذیبی احیاء” اور “قومی تقدیر” جیسے الفاظ میں لپٹی ہوئی فاشسٹ حکمتِ عملیوں کو عملی جامہ پہناتی ہیں ،  ان کا بنیادی رشتہ صرف اسٹریٹیجک نہیں بلکہ نظریاتی ہے جس کا مطلب  فتح، قبضے، اور مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

نوآبادیاتی بنیادیں ، صیہونیت نسل پرستی سے قوم پرستی تک

آزاد ریسرچ  کے مطابق صیہونیت کی بنیاد ہی اس تصور پر ہے کہ یہودی ایک منفرد قوم ہیں، جنہیں تاریخی فلسطین پر مکمل خودمختاری کا حق حاصل ہے چاہے وہاں مقامی عرب آبادی صدیوں سے آباد ہو اور اسی اس تصور نے فلسطینیوں کے خلاف طویل جبری انخلاء، زمینوں پر قبضے، نسل کشی، اور آبادکاری کو جائز قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں : پہلگام حملے کی تحقیقات ، مودی سرکار ثبوت پیش کرنے میں ناکام

 1948 کی النکبہ کے دوران 7لاکھ50 ہزار  سے زائد فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا، اوریہ سلسلہ غیر قانونی بستیوں، گھروں کی مسماری، نسل پرستانہ قوانین اور غزہ پر بمباری کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔

ہندوتوا: ثقافتی قوم پرستی کے نقاب میں فاشزم

ہندوتوا کی نظریاتی بنیاد وینائک دامودر ساورکر کی 1923 کی کتاب ہندوتوا: ہندو کون ہے؟ میں رکھی گئی، جو بھارتی شناخت کو صرف ہندو نسلی و ثقافتی زاویے سے دیکھتی ہے ، یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بیرونی دشمن قرار دے کر انہیں بھارت کی تہذیب سے خارج کر دیا جاتا ہے ، ہندوتوا صرف اقتدار کا خواب نہیں دیکھتی ، یہ تہذیبی اجارہ داری کا ایسا منصوبہ ہے، جو صدیوں کی ہم آہنگی کو مٹاکر بھارت کو “ہندو راشٹر” میں بدلنا چاہتی ہے۔

پالیسی کی سطح پر بالادستی

صیہونیت اور ہندوتوا دونوں ایک مخصوص نسل یا مذہب کی برتری کے دعوے پر قائم ہیں،  صیہونیت یہودیوں کو “خدا کی منتخب قوم” قرار دیتی ہے، جبکہ ہندوتوا ہندوؤں کو بھارتی برِصغیر کے “قدرتی حکمران” مانتی ہے،  یہ بالادستی کا نظریہ صرف کتابوں تک محدود نہیں بلکہ یہ حکومتی پالیسیوں میں کھلے عام نافذ ہو چکا ہے۔

گھروں کی مسماری، شناخت ختم کرنے کا منصوبہ

اسرائیل میں فلسطینیوں کے گھروں، زیتون کے باغات، مسجدوں اور محلوں کی مسماری ایک منظم مہم ہے تاکہ فلسطینیوں کے وجود کو زمین سے مٹایا جا سکےبالکل اسی طرح  بھارت میں “بلڈوزر راج” ہندوتوا کی علامت بن چکی ہے خاص طور پر یوپی میں، جہاں مسلمانوں کی بستیوں، مسجدوں اور کاروباروں کو انتقامی طور پر مسمار کیا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ “حادثاتی نقصان” نہیں بلکہ طے شدہ پالیسی ہے۔

نسل کشی کا بیانیہ اور عملدرآمد

دونوں ریاستوں میں نسل کشی کی زبان اور عملدرآمد سرکاری سطح پر عام ہو چکے ہیں ،  2023 کے غزہ حملے کے دوران، اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلنٹ  نے فلسطینیوں کو “انسانی جانور” قرار دیا اور ان کے خلاف مکمل محاصرے، بھوک، اور بمباری کی وکالت کی۔

یہ بھی پڑھیں :یہود و ہنود کا نیا گٹھ جوڑ ، بھارت اسرائیل اتحاد کے خفیہ معاشی رازوں سے پردہ اٹھ گیا

اسی طرح بھارت میں بی جے پی رہنما آر ایس ایس کے قیادت حتیٰ کہ وزراء مسلمانوں کے بائیکاٹ، جبری نس بندی، اور قتل کے اعلانات کر چکے ہیں ،  2002 میں نریندر مودی  کی وزارت اعلیٰ میں گجرات میں ہونیوالے قتل عام میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کو ذبح کیا گیا ، گائے کے گوشت کی افواہوں پر مسلمانوں کو ہجوم میں تشدد کا نشانہ بنانا بھی اسی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔

کشمیر اور فلسطین: قابض افواج، مزاحمت، اور قید

آزاد ریسرچ کے مطابق کشمیر اور فلسطین کے حالات میں خوفناک مماثلتیں ہیں جیسا کہ دونوں خطے فوجی قبضے میں ہیں ، دونوں علاقوں کی مسلم آبادی مسلسل نگرانی، کرفیو، تشدد، اور جبر کا شکار ہے اور دونوں علاقوں میں ثقافتی اور آبادیاتی کے خاتمےکا عمل  جاری ہے۔

اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیاں غزہ کو ہتھیاروں اور نگرانی کے نظام کی “تجربہ گاہ” بناتی ہیں، اور بھارت وہی نظام کشمیری عوام پر آزما رہا ہے،  پیگاسس اسپائی ویئر جیسے اسرائیلی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں اور کشمیر میں 8 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ظلم کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔

مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وادی میں میڈیا بلیک آؤٹ، کریک ڈاؤن، اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں جس کا مقصد کشمیریوں کی شناخت کا خاتمہ تھا ۔

عالمی اتحاد اور تارکینِ وطن کا کردار

آزاد ریسرچ رپورٹ کے مطابق صیہونیت اور ہندوتوا کی پشت پناہی صرف مقامی ریاستی ادارے نہیں کر رہے بلکہ ان کے نظریاتی و مالی اتحادی امریکا، کینیڈا، اور برطانیہ میں موجود ہیں ، یہ گروہ پروپیگنڈے، سیاسی مداخلت، اور اسلاموفوبک نیٹ ورکس کو منظم کرنے کے لیے اربوں روپے استعمال کر رہے ہیں ، جیسا کہ سنینا مائیرا نے Journal of Palestine Studies (2019) میں لکھا:

“یہ نیٹ ورکس ایک مشترکہ اسلام دشمن بنیاد پر کام کرتے ہیں، ہر اختلاف کو ‘دہشت گردی’ قرار دیتے ہیں اور سچ بولنے والوں کو خاموش کروانے کی منظم کوشش کرتے ہیں۔”

ایک جیسا فاشزم، دو مختلف چہرے

صیہونیت اور ہندوتوا دونوں کی بنیاد ایک ہی سوچ پر ہے وہ یہ کہ اقلیتوں کو یا تو بے دخل کیا جائے، قتل کیا جائے، یا مکمل  محکموم بنا دیا جائے ، ان کے خواب امن، برابری یا جمہوریت کے نہیں بلکہ نسلی صفایا، نسلی ریاست اور فوجی کنٹرول کے ہیں۔

جیسا کہ آزاد عیسیٰ نے اپنی کتاب Hostile Homelands (2023) میں لکھا:

 “مودی کا بھارت اور صیہونی اسرائیل صرف اتحادی نہیں، بلکہ ایک مشترکہ نظریاتی تحریک کے دو چہرے ہیں ، جو فتح، قبضے اور ثقافتی صفائے کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔”

یہ جدید فاشزم کی دو شکلیں ہیں ، جو نفرت، تشدد، اور مطلق العنانیت سے زندہ ہیں ، اگر عالمی برادری خاموش رہی، تو یہ تشدد مزید بڑھے گا۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *