آزاد ریسرچ ڈیسک :جب سفارتی محاذ پر پاکستان ایک کے بعد ایک زناٹے دار تھپڑ بھارت کے چہرے پر رسید کرے، کشمیر کا مقدمہ عالمی فورمز پر اٹھے، خالصتان کی گونج مغرب میں سنائی دے اور مودی سرکار کو بین الاقوامی میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو بھارتی عوام کو ان حقائق سے دور رکھنے کے لیے “من کی بات” جیسا ریڈیو تماشہ بروئے کار آتا ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق یہ پروگرام اب ایک بھارتی پروپیگنڈا مشین سے زیادہ کچھ نہیں، جس میں مودی ہر مہینے خود کو مہاتما اور ملک کو ایک “سنہرا بھارت” بنا کر پیش کر تا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں کرفیو، اقلیتوں پر ظلم، کسانوں کی خودکشیاں اور سفارتی تنہائی نے بھارت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں :مودی سرکار کے پہلگام فالس فلیگ اور آپریشن سندور کی کامیابی کے دعوے بے نقاب
لیکن ان سچائیوں پر بات کرنے کی اجازت نہیں اس لیے “من کی بات” آتی ہے اور سچائیوں پر یوگا، چائے اور جذباتی کہانیوں کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
پاکستان سے منہ کی کھانے کے بعد مودی حکومت اپنے عوام کو دشمن کے خوف سے نہیں، سچ کے انکشاف سے ڈراتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مہینے ریڈیو پر صرف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہےنریندر مودی کی، جو صرف لوگوں پر بولتے ہیں جنتا کی سنتے کبھی نہیں۔
من کی بات وزیر اعظم نریندر مودی کا ریڈیو پروگرام ہے جو ہر مہینے آل انڈیا ریڈیو، دوردرشن اور مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کو عوامی رابطے کا ذریعہ بتایا جاتا ہے مگر اصل میں یہ صرف اور صرف ایک شخص کی آواز کو باقی ساری قوم پر مسلط کرنے کی منظم کوشش ہے۔
یہ خبربھی پڑھیں :پرشانت کشور نے مودی کے ’آپریشن سندور‘ کا پوسٹ مارٹم کردیا
یہ پروگرام حقیقت میں ایک ایسا سیاسی ہتھیار بن چکا ہے جسے مودی حکومت اپنی ظالمانہ پالیسیوں، عوامی استحصال اور اقلیت دشمن اقدامات پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ جب کشمیر میں لاک ڈاؤن نافذ ہوتا ہے، جب دلتوں کو مارا جاتا ہے، جب مسلمانوں کو سڑکوں پر بے رحمی سے پیٹا جاتا ہے، جب صحافیوں کو خاموش کرایا جاتا ہے تو انہی دنوں “من کی بات“ میں امن، ترقی، یوگا اور کامیابیوں کے رنگین خواب سنائے جاتے ہیں۔
نریندر مودی کا ریڈیو پروگرام “من کی بات” اپنے 123ویں ایپی سوڈ تک پہنچ چکا ہے، مگر یہ سوال آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کیا واقعی یہ عوام کی بات ہے یا صرف وزیر اعظم کی خود ستائی اور یکطرفہ بیانیے کا پرچار ؟
ہر ماہ نشر ہونے والا یہ پروگرام جسے حکومتی ادارے عوامی رابطے کا ذریعہ کہتے ہیں حقیقت میں ایک پروپیگنڈاشوہے، جو جمہوریت کے خول میں آمریت کی خوشبو دیتا ہے۔
عوام کے اصل مسائل ، مہنگائی، بےروزگاری، اظہار رائے کی گھٹن، اقلیتوں کا استحصال سب اس پروگرام کے اسکرپٹ میں کہیں جگہ نہیں پاتے۔
یوگا اور قومی ترقی: اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی چال
تازہ ایپی سوڈ میں مودی نے یوگا کو ایک بار پھر قومی ترقی کا ستون قرار دیا، گویا ملک کے لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کے زخموں پر یوگا کی پٹی رکھ کر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکتی ہے۔ جب ملک کی معیشت لڑکھڑا رہی ہو، نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے خاک چھان رہے ہوں، تو یوگا کے بھاشن ایک ظالمانہ مذاق سے کم نہیں۔
من کی بات، لیکن “من” صرف ایک شخص کا
جمہوریت میں بات چیت دو طرفہ ہوتی ہے، لیکن “من کی بات” میں صرف مودی کی بات ہوتی ہے بغیر کسی تنقید، سوال یا جوابدہی کے۔ یہ ایک ایسی سیاسی یکطرفہ تقریر ہے جس میں قوم کی رائے کا کوئی عکس تک دکھائی نہیں دیتا۔ نہ سوال کرنے والا کوئی صحافی ہوتا ہے، نہ جواب کا کوئی دباؤ۔ یہ مکمل طور پر ایک شخصی حکمرانی کے انداز میں ڈھلا ہوا شو ہے۔
سرکاری اشتہار یا سنجیدہ مکالمہ؟
ہر مہینے نشر ہونے والا یہ پروگرام ایک سیاسی اشتہار کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس میں مودی اپنی شخصیت کو ایک “مسحور کن نجات دہندہ” کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چالاک مارکیٹنگ ہے جس میں نہ صرف عوامی پیسہ خرچ ہوتا ہے بلکہ جمہوریت کے نام پر عوام کو شعوری طور پر ایک مخصوص بیانیے کے تابع بنایا جاتا ہے۔
عالمی پسندیدگی کا دعویٰ کھوکھلا اور بے بنیاد
حکومت کا یہ کہنا کہ “من کی بات” کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے، محض ایک غیر مصدقہ دعویٰ ہے۔ کوئی شفاف سروے، کوئی بین الاقوامی رپورٹس، یا آزاد میڈیا کی تائید نہیں ملتی۔ یہ صرف وہی کہانی ہے جو سرکاری نیوز ایجنسیوں کے ذریعہ دن رات دہرائی جاتی ہے تاکہ حقیقت پسِ پردہ رہے۔
من کی بات آج جمہوریت کا ترجمان نہیں، بلکہ اس کی بے رحمانہ خاموشی کی علامت بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے عوام کو سننے کا دھوکہ دے کر اصل میں صرف حکمران کی آواز کو تقویت دی جاتی ہے۔ یہ پروگرام اب قوم کی بات نہیں کرتا، بلکہ صرف ایک شخص کی خودستائی کا گیت گاتا ہے ۔
Sharing this month’s #MannKiBaat. Do tune in! https://t.co/N8WrWlWNId
— Narendra Modi (@narendramodi) June 29, 2025