خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شرپسندوں، خوارج اور دہشتگردوں کی جانب سے جاری ’گوریلا طرز‘ کی کارروائیوں کے تناظر میں ممتازعالمِ دین مفتی عبد الرحیم نے ایک جامع شرعی مؤقف پیش کرتے ہوئے ان کے خلاف ریاستی اقدامات کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیا ہے۔
مفتی عبدالرحیم نے قرار دیا ہے کہ ریاست کے خلاف ملک کے اندر سے کوئی بھی گوریلا جنگ نہ صرف ریاستی سالمیت بلکہ شریعت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
گوریلا جنگ، شرعی تشریح اور نقصانات
مفتی عبد الرحیم کے مطابق ’ گوریلا جنگ ایک خفیہ اور فریب پر مبنی لڑائی ہے جس میں حملہ آور نشانہ لگا کر فوراً فرار ہو جاتے ہیں تاکہ ریاستی ردعمل کو مقامی عوام کے خلاف بھڑکایا جا سکے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’ایسے حالات میں اگر کسی شخص پر شک ہو تو اس کی گرفتاری شریعت کی روشنی میں جائز ہے۔ حتیٰ کہ اگر ریاست شک کی بنیاد پر 100 افراد کو بھی حراست میں لے، تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے‘۔
ریاستی ردعمل اور شرعی جواز
مفتی عبد الرحیم کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی مسجد پر حملہ ہو یا خودکش دھماکا کیا جائے تو ریاستی ردعمل ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اگر اس ردعمل میں کوئی بے گناہ مارا جائے تو یہ گناہ ریاست یا فوج پر نہیں ہوگا، تاہم فوج دیت ادا کرے گی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ ریاستی ادارے مکمل طور پر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کا مقصد عوام کی حفاظت اور امن کی بحالی ہوتا ہے‘۔
سہولت کار اور مجرم برابر
مفتی عبد الرحیم نے گوریلا جنگ میں سوشل میڈیا پر دہشتگردوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی جرم میں برابر کا شریک قرار دیا اور کہا کہ ’ صرف قاتل ہی نہیں، بلکہ سہولت کار بھی قتل کے گناہ میں شامل ہوتا ہے۔ دہشتگردی کی حمایت کرنے والے بھی شرعی لحاظ سے مجرم ہیں‘۔
امن کی اپیل
مقامی افراد کے لیے مفتی عبد الرحیم نے ایک اہم پیغام جاری کیا کہ ’ مقامی افراد کو چاہیے کہ وہ گوریلا جنگ اور کسی بھی قسم کے انتشار سے گریز کریں اور امن کو ترجیح دیں۔ اس جنگ کا مقصد عوام کو ریاست سے متنفر کرنا اور مقامی آبادی کو نقصان پہنچانا ہے‘۔
شرعی اور قومی ہم آہنگی کی ضرورت
مفتی عبد الرحیم کا تفصیلی شرعی مؤقف ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب بعض حلقے ریاستی کارروائیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا مؤقف واضح کرتا ہے کہ ریاستی اقدامات شریعت کے اصولوں کے عین مطابق ہیں اورعوام کو دہشتگرد عناصر سے دور رہ کر قومی یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے۔