روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

روس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے نامزد کردہ سفیر کی اسناد باضابطہ طور پر قبول کر لی ہیں، جس کے بعد روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

روسی خبر رساں ادارے کے مطابقیہ اعلان روس کے صدر کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف کی جانب سے کیا گیا، اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا یہ فیصلہ دوطرفہ روابط میں وسعت لانے اور مختلف شعبوں میں مؤثر تعاون کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ماسکو دہشت گردی، منشیات کے خلاف جنگ اور سکیورٹی کے دیگر معاملات میں طالبان حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا،ساتھ ہی دونوں ممالک کے مابین تجارت، توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور انفراسٹرکچر جیسے اہم شعبوں میں شراکت داری کے امکانات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

یہ خبربھی پڑھیں :خطے میں بدلتی سفارت کاری: پاکستان اور افغانستان ایک نئے دور کی دہلیز پر

افغان وزارت خارجہ نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ روسی سفیر دمتری ژیرنوف نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور انہیں روس کے فیصلے سے آگاہ کیا۔

امیر خان متقی نے اس موقع پر روس کے اقدام کو جرات
مندانہ  قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بنے گا، روس کی یہ حمایت افغان حکومت کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اب تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا تھا، اگرچہ چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان جیسے ممالک نے کابل میں اپنے سفیر ضرور مقرر کیے ہیں۔

افغانستان اس وقت شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے تقریباً 7 ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ ایسے حالات میں روس کی جانب سے تعاون افغانستان کے لیے اہمیت کا حامل ہوگا۔

طالبان اور روس کے تعلقات کا پس منظر

طالبان اور روس کے درمیان تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہیں،صدر ولادیمیر پیوٹن نے 2024 میں طالبان کو انسداد دہشت گردی میں روس کا شراکت دار قرار دیا تھا۔

 

2022 سے افغانستان نے روس سے گیس، تیل اور گندم کی درآمد کا سلسلہ شروع کیا تھا، یاد رہے کہ 2003 میں روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا تاہم اپریل 2025 میں روسی عدالت نے یہ پابندی ختم کر دی۔

روس کے لیے افغانستان سے تعاون اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اسے وہاں سے مشرق وسطیٰ میں سرگرم انتہا پسند گروہوں سے سنگین سیکورٹی خطرات لاحق ہیں،مارچ 2024 میں ماسکو کے قریب ایک کنسرٹ ہال پر دہشت گرد حملے میں 149 افراد جان سے گئے تھے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

طالبان نے نہ صرف امریکہ بلکہ روس کو بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور وہ داعش کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

افغانستان اور روس کی تاریخی کشمکش

یاد رہے کہ افغانستان اور روس (سابق سویت یونین) کے تعلقات ایک پیچیدہ اور خونریز ماضی رکھتے ہیں 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان میں ایک کمیونسٹ حکومت کی حمایت میں فوجی مداخلت کی تھی، جس کے خلاف افغان مجاہدین نے مزاحمت کی۔

اس جنگ میں امریکہ نے مجاہدین کی حمایت کی جس کے نتیجے میں سویت افواج کو بالآخر 1989 میں افغانستان سے انخلا پر مجبور ہونا پڑا اس طویل جنگ میں تقریباً 15 ہزار سوویت فوجی ہلاک ہوئے تھے اور کچھ ہی عرصے بعد سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *