بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے حالیہ ہفتوں میں 9 ریاستوں میں پارٹی صدور کا اعلان کیا ہے، جن میں زیادہ تر چہرے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ ہیں ، یہ تقرریاں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب پارٹی اندرونی اختلافات اور تنظیمی بحران سے دوچار ہے.
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان فیصلوں سے آر ایس ایس کا بی جے پی پر اثر و رسوخ ایک بار پھر نمایاں ہو رہا ہے، جو پارٹی کے مستقبل کے سیاسی اور نظریاتی رخ کا تعین کر سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا یہ اقدام بظاہر تنظیمی بہتری کے لیے تھا، لیکن درحقیقت یہ اقدام اندرونی کمزوریوں اور شدید گروہ بندیوں کو قابو میں لانے کے لیے کیا گیا مگر اصل محرک بی جے پی کے اندر نہیں، بلکہ باہر سے تھا ، یہ صرف ایک اسٹریٹجک تبدیلی نہیں، بلکہ ایک ایسا نظریاتی کنٹرول ہے جو اب جمہوری پارٹی سیاست کے تمام اصول بدل رہا ہے۔
تنظیمی مفلوجی اور آر ایس ایس کی واپسی
جنوری 2024 میں جے پی نڈا کی مدت ختم ہونے کے بعد سے بی جے پی نیا صدر منتخب کرنے میں ناکام رہی، بار بار انتخابات ملتوی کیے گئے، پہلے لوک سبھا الیکشن کے بہانے، بعد میں اندرونی جھگڑوں اور ذات پات کی سیاست کی وجہ سے ، چنانچہ اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے آر ایس ایس نے دوبارہ قدم رکھا اور اس بار صرف رہنمائی کے لیے نہیں، بلکہ مکمل کنٹرول کے ساتھ۔ نمایاں ہے ۔
جون تا جولائی 2025 کے دوران بی جے پی نے نو نئے ریاستی صدور کا اعلان کیا، جس سے پارٹی نے الیکٹورل کالج بنانے کی آئینی شرط پوری کرلی ، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام تقرریوں میں آر ایس ایس نے براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کے تجزیے کے مطابق یہ تنظیمی بہتری نہیں، بلکہ نظریاتی “صفائی” ہے، بی جے پی کا آر ایس ایس پر انحصار اس بات کا اشارہ ہے کہ اب حکمرانی سیاسی بصیرت سے نہیں، بلکہ نظریاتی وفاداری سے ہوگی۔
قائدین نہیں، نظریاتی نمائندے
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق نئے ریاستی صدور میں سے زیادہ تر کے پاس عوامی مقبولیت یا سیاسی تجربہ نہیں ہےتاہم ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے پرانے کارکن ہیں، جنہوں نے اکثر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش، ہماچل پردیش اور پڈوچیری میں کیے گئے تقرریوں میں سبھی غیر متنازع اور خاموش کارکنان تھے، جنہیں بلا مقابلہ چنا گیا یعنی پارٹی کے اندر مخالفت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ، یہ سب تقرریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ پارٹی کی تنظیم نو نہیں، بلکہ نظریاتی لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے۔
پارٹی کی سربراہی کی دوڑ: تین آر ایس ایس مرد میدان میں
بی جے پی کے آئندہ صدر کے لیے تین نام زیر غور ہیں جن میں بھُوپندر یادو –مرکزی وزیر ماحولیات، اور امیت شاہ کے قریبی ساتھی جبکہ دوسرا نام ایم ایل کھٹر جو کہ سابق وزیراعلیٰ ہریانہ، موجودہ مرکزی وزیر ہیں اور شیوراج سنگھ چوہان – سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش، موجودہ وزیر زراعت ہیں ۔
تینوں کا سیاسی آغاز آر ایس ایس کے کیمپوں سے ہوا لہذا فیصلہ بی جے پی کے دفتر میں نہیں ہوگا، بلکہ آر ایس ایس کی “پرنت پرچارک” میٹنگ (4 تا 6 جولائی، نئی دہلی) میں ہوگا، جس کی صدارت سربراہ موہن بھاگوت اور جنرل سیکریٹری دتاتریہ ہوسبولے کریں گے۔
قومی سلامتی اور جمہوریت پر اثرات
آزاد ریسرچ ڈیسک کے تجزیے کے مطابق آر ایس ایس کا بی جے پی پر دوبارہ کنٹرول صرف اندرونی پارٹی تبدیلی نہیں، بلکہ قومی سطح پر گہرا اثر ڈالے گا۔
آرایس ایس کے کارکنوں کی قیادت میں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف پارٹی کی پالیسیاں اقلیت دشمن بننے کا خدشہ ہے، لوک سبھا میں سیٹوں میں کمی کے بعد بی جے پی آر ایس ایس کے ساتھ مل کر ممکنہ طور پر پاکستان کے خلاف جنگی ماحول پیدا کرے گی تاکہ توجہ داخلی ناکامیوں سے ہٹائی جا سکے۔
آر ایس ایس کا بڑھتا ہوا اثر سول اداروں میں عسکری بیانیے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش بن سکتا ہے، جو کہ جمہوری اداروں کے لیے خطرناک ہے۔
کیا یہ پارٹی کی تنظیم نو ہے یا جمہوریت کا خاتمہ؟
آزاد ریسرچ کے مطابق بی جے پی کے حالیہ اقدامات کو تنظیمی بہتری نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک نیا موڑ ہے، جہاں پارٹی، حکومت اور نظریہ ایک ہو چکے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کے دعویدار بھارت کے جمہوری ادارے اس نظریاتی یلغار کو روک سکیں گے؟ کیا یہ قیادت تبدیلی بی جے پی کو استحکام دے گی یا اسے مزید تقسیم کا شکار بنا دے گی؟