امریکا کی ایک عدالت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے، جس کا مقصد امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت سے محروم کرنا ہے۔ یہ فیصلہ نئی عدالتی کارروائیوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
یہ حکم جمعرات کو نیو ہیمپشائر کی امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جوزف لاپلانت نے جاری کیا۔ انہوں نے اس کیس کو اجتماعی مقدمے (کلاس ایکشن) کی حیثیت دی، جس میں وہ تمام بچے شامل ہوں گے جنہیں اس حکم کے تحت شہریت نہ ملنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
جج نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے اس پالیسی پر عمل درآمد کو روکتے ہوئے کہا کہ قانونی کارروائی مکمل ہونے تک اسے معطل رکھا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس فیصلے پر عمل درآمد کو 7 دن کے لیے مؤخر کر دیا تاکہ ٹرمپ انتظامیہ اپیل کر سکے۔
ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر ان بچوں کو امریکی شہریت سے محروم کرنے کا حکم دیتا ہے جو غیر قانونی تارکین وطن یا عارضی ویزے پر امریکا میں مقیم والدین کے ہاں پیدا ہوئے ہوں۔ یہ امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی ایک بالکل مختلف تشریح ہے، جو امریکا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت کی ضمانت دیتی ہے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکیل کوڈی ووفسی، جو اس مقدمے میں پیش ہوئے، نے کہا کہ ’ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ فیصلہ ان تمام بچوں کی شہریت کے تحفظ میں مدد دے گا جو امریکا میں پیدا ہوئے ہیں ‘۔
ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ 14ویں ترمیم، جو 1868 میں سابق غلاموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے منظور کی گئی تھی، غیر قانونی تارکین وطن یا عارضی مہمانوں کے بچوں پر لاگو نہیں ہوتی۔ لیکن سپریم کورٹ اس مؤقف کو پہلے ہی 1898 کے ایک تاریخی فیصلے میں مسترد کر چکی ہے۔
موجودہ سپریم کورٹ، جس میں قدامت پسند ججوں کی 6-3 کی اکثریت ہے، نے حالیہ فیصلے میں کہا کہ انفرادی وفاقی جج صدر کی پالیسیوں پر پورے ملک میں پابندی نہیں لگا سکتے۔ تاہم، عدالت نے ٹرمپ کے حکم کے آئینی پہلو پر براہ راست کوئی فیصلہ نہیں دیا، لیکن اس پر عمل درآمد کی اجازت دی اور ساتھ ہی حکم پر عمل درآمد کو جولائی کے آخر تک مؤخر کیا تاکہ نئی عدالتی درخواستیں دائر کی جا سکیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس بالآخر دوبارہ سپریم کورٹ جا سکتا ہے، جہاں ایک صدی سے زائد عرصے بعد پہلی بار پیدائشی شہریت سے متعلق آئینی سوالات پر حتمی فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔