بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی زیرِ قیادت بھارت میں ہندوتوا نظریہ اب ایک محض فکری رجحان یا سازشی سوچ نہیں رہا، بلکہ یہ جھوٹ، نفرت اور غنڈہ گردی پر مبنی ایک منظم سیاسی ایجنڈے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس انتہاپسند رجحان کے اثرات اب نہ صرف اقلیتوں بلکہ خود ریاستی اداروں کے اہلکاروں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
تازہ واقعہ اترپردیش کے شہر مرزاپور میں سامنے آیا ہے، جہاں ریلوے اسٹیشن پر سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ایک اہلکار کو ہندوتوا غنڈوں نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ معتبر بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق، یہ واقعہ 19 جولائی کو اُس وقت پیش آیا جب مذکورہ اہلکار براہما پُترا ایکسپریس کا انتظار کر رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، فوجی اہلکار کا ہندو یاتریوں سے ٹکٹ کے معاملے پر جھگڑا ہوا، جس کے بعد 8 سے زیادہ یاتریوں نے اسے وردی میں ہی گھیر کر زمین پر گرا دیا۔ سی آر پی ایف اہلکار نے مزاحمت کی کوشش کی، مگر مشتعل ہجوم نے اس پر مکوں، تھپڑوں اور لاتوں سے شدید تشدد کیا۔ جب اہلکار زمین سے اٹھا تو ایک یاتری نے دوبارہ اسے تھپڑ رسید کیا، اور باقی حملہ آوروں نے اسے دوبارہ زمین پر گرا کر مارا پیٹا۔
پلیٹ فارم پر موجود چند افراد نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی، مگر تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس واقعے نے بھارت میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور قانون کی حکمرانی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اس افسوسناک واقعے پر مودی سرکار کی خاموشی ایک بار پھر مجرمانہ غفلت کا مظہر بن کر سامنے آئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی تحفظ اب صرف اکثریتی طبقے کے انتہاپسند عناصر کے لیے مخصوص ہو چکا ہے، جب کہ عام شہری، اقلیتیں اور یہاں تک کہ سیکیورٹی اہلکار بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مودی سرکاراب انصاف، قانون اور جمہوریت کا مرکز نہیں رہا بلکہ ایک ایسا میدانِ جنگ بن چکا ہے جہاں ہندوتوا دہشتگرد کھلے عام گھومتے ہیں، سچ بولنے والوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے، اور غنڈوں کو ’راشٹروادی ہیرو‘ کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔
یہ واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مودی کا بھارت اب ایک فسطائی ریاست کا نقشہ پیش کر رہا ہے، جہاں طاقت اور تشدد ہی سب سے بڑا قانون بن چکے ہیں۔