پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اسلام آباد بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کے لیے تیار ہے اور پاکستان علاقائی امن اورعالمی شراکت داری کے لیے پرعزم ہے۔
واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ’ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن یہ مذاکرات بامقصد ہونے چاہییں، ہم کسی غیر جانبدار مقام پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کی خطے میں تسلط اور برتری کی کوششیں 7 سے 10 مئی کے دوران دفن ہوگئیں، اسحاق ڈار
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے لشکرِ طیبہ جیسے کالعدم گروہوں کے خلاف پہلے ہی اقدامات کیے ہیں لیکن بھارت دنیا کی توجہ اصل علاقائی مسائل سے ہٹانے کے لیے’بے بنیاد بہانوں‘ کا سہارا لے رہا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان خطے کی صورتحال کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور تعمیری مذاکرات وقت کی ضرورت ہیں۔
فلسطین کی آزادی اور امریکا سے معاشی روابط پر زور
بین الاقوامی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے مطالبہ کیا کہ فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دیا جائے جس کا دارالحکومت القدس ہو۔ امریکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے زور دیا کہ پاکستان معاشی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
’ہم امداد نہیں، تجارت چاہتے ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے‘۔
انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کو’مثبت اور نتیجہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔
چین سے اسلحہ کی خریداری امریکا کے خلاف نہیں
چین سے اسلحہ کے حالیہ معاہدے پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ اس کا مقصد امریکا کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانا نہیں ہے،’ پاکستان کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوسرے ملک کی نظر سے نہیں دیکھتا‘۔
مزید پڑھیں:اسحاق ڈارکی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات، تجارت اور سرمایہ کاری سمیت اہم شعبوں میں تعاون پرتبادلہ خیال
انہوں نے کہا کہ عالمی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے، عالمی معیشت دباؤ میں ہے اور دہشتگردی بدستور ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے‘۔ ’پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سرگرم کردار ادا کر رہا ہے‘۔
پی ٹی آئی پر تنقید اور قانونی معاملات کی وضاحت
اسحاق ڈار نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 2014 کے 126 روزہ دھرنے کو ملکی معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا۔ 9 مئی کے واقعات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’مقبولیت کسی کو قانون ہاتھ میں لینے یا مسلح کارروائیوں کا جواز نہیں دیتی۔ جب کوئی ہتھیار اٹھاتا ہے تو پھر مفاہمت کرنے والا شخص بھی کچھ نہیں کر سکتا‘۔