پاک بھارت جنگ بندی : ڈی جی ایم اوز کی بات چیت سے ہوئی امریکی ثالثی سے نہیں، جے شنکر کا دعویٰ

پاک بھارت جنگ بندی : ڈی جی ایم اوز کی بات چیت سے ہوئی امریکی ثالثی سے نہیں، جے شنکر کا دعویٰ

بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال جون کے مہینے میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں سیز فائر براہ راست ڈی جی ایم اوز کی بات چیت سے ہوا ہے اور اس میں امریکی ثالثی کا کوئی کردار نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیرخارجہ نے لوک سبھا میں یہ بھی کہا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کے دوران کسی بھی مرحلے پر تجارت اور آپریشن سندور کو جوڑنے کی بات نہیں ہوئی،  انہوں نے دعویٰ کیا کہ  امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اطلاع دی کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، اسی دن پاکستانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او)  نے بھارتی ہم منصب سے براہ راست رابطہ کر کے جنگ بندی کی درخواست کی۔

 انہوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان 22 اپریل سے 17 جون تک کوئی ٹیلیفونک رابطہ نہیں ہوا۔

ان کا یہ بیان امریکی صدر  ٹرمپ کی اس دعوے کی تردید میں آیا ہے جس میں انہوں نے دو درجن سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروائی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے تھے ، امریکی صدر ٹرمپ

جے شنکر نے بتایا کہ امریکی صدر نے صرف 22 اپریل کو پہلگام حملے پر افسوس کا اظہار کرنے کے لیے فون کیا تھا، اس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے رہے ہیں ،

واضح رہے کہ یہ جے شنکر کا پہلا تفصیلی بیان ہے جس میں انہوں نے اس تنازع کے اختتام سے متعلق بھارتی مؤقف پیش کیا ہے، جو امریکی صدر ٹرمپ کے بیانیے سے بالکل مختلف ہے۔

ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیشکش  کی بات پر نئی دہلی کی طرف سے ردعمل آیا ہے، جو طویل عرصے سے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، سابق بھارتی وزیرداخلہ

ٹرمپ نہ صرف مئی کی کشیدگی ختم کرانے کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں بلکہ پاکستانی عسکری قیادت کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور ان کی تحمل کی پالیسی کو سراہتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تعاون سے پرامن حل ممکن ہوا، اگرچہ یہ مؤقف واشنگٹن کی سفارتی حکمت عملی کے لیے موزوں ہو سکتا ہے، لیکن نئی دہلی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *