خیبر پختونخوا میں دیہی معیشت کی بحالی کے لیے 2022 میں شروع کیے گئے اربوں روپے مالیت کے ’’خیبر پختونخوا رورل اکنامک ٹرانسفارمیشن پراجیکٹ‘‘ کو تین سال گزرنے کے باوجود نہ کوئی تربیتی سیشن دیا گیا، نہ کسانوں کو قرض فراہم کیا گیا اور نہ ہی منصوبہ اپنے مقاصد کے قریب پہنچ سکا۔
بین الاقوامی قرضوں اور صوبائی فنڈز سے چلنے والے 30 ارب 26 کروڑ روپے مالیت کے اس منصوبے کا مقصد چھوٹے کسانوں کو جدید تربیت، قرضے، اور خودمختار تنظیموں کی تشکیل کے ذریعے بااختیار بنانا تھا، لیکن آج تک کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔
دستاویزات کے مطابق، منصوبے کے لیے مختص فنڈز میں 17 ارب 56 کروڑ روپے کا غیرملکی قرض، 4.71 ارب روپے کی صوبائی شراکت داری اور یورپی یونین کا 15 ملین یورو کا گرانٹ شامل ہے۔ منصوبے کے تحت 550 کسان تنظیمیں بنانے، 60 ہزار افراد کو تربیت دینے، اور 16.285 ارب روپے کے چھوٹے قرضوں کی تقسیم کے وعدے کیے گئے تھے، لیکن تربیت کی مدت کو بغیر کسی منظوری کے 3 سے 6 ماہ سے کم کر کے صرف 45 گھنٹے کر دیا گیا۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) اور ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا) کو 1 ارب 32 کروڑ روپے کا تربیتی معاہدہ دیا گیا، جبکہ 15 کروڑ روپے الگ سے ٹریننگ کی ضرورت کا جائزہ لینے کیلئے دیے گئے، جس کا نتیجہ بھی سامنے نہ آ سکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے کے معاہدوں میں 50 فیصد رقم ایڈوانس میں دی گئی، جو پلاننگ کمیشن کی 20 فیصد کی حد سے متصادم ہے، جب کہ بھرتیوں میں قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔
دستاویزات کے مطابق، منصوبے کے لیے گریڈ 19 کی منظور شدہ پوسٹ پر “سعدیہ” نامی افسر کو تعینات کیا گیا تھا، مگر بعد ازاں بغیر کسی اشتہار، شارٹ لسٹنگ یا انٹرویو کے یہ عہدہ ایک پی ایم ایس افسر “امجد معراج” کو دے دیا گیا۔ حیران کن طور پر، سعدیہ کو بعد میں “جینڈر منیجر” کی خالی پوسٹ (گریڈ 18) پر منتقل کر دیا گیا جبکہ جینڈر منیجر کی پوسٹ پر تقرری کیلئے بھی طریقہ کار موجود ہے جس کیلئے اشتہار مشتہر کرنا ہوگا ، اس کے بعد شارٹ لسٹنگ اور انٹرویوز کے عمل سے گزرنا ہوگا تاہم اس سارے عمل کو یکسر نظر انداز کردیا گیا لیکن دونوں افسران اب بھی گریڈ 19 کی تنخواہ ہر ماہ وصول کر رہے ہیں۔
منصوبے کے لیے حیات آباد میں پی ڈی اے بلڈنگ میں مہنگا دفتر کرایہ پر لیا گیا، جس کا ماہانہ کرایہ لاکھوں روپے میں ہے۔ اس دفتر کی تزئین و آرائش پر بھی 50 لاکھ روپے خرچ کیے گئے، مگر بعد ازاں بیشتر عملہ منصوبہ بندی و ترقیات سیکرٹریٹ منتقل کر دیا گیا۔
منصوبہ ابتدائی دو سال محکمہ زراعت کے زیر انتظام رہا، لیکن سرکاری افسران خود اعتراف کرتے ہیں کہ اس دوران کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ بعد ازاں منصوبہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے سپرد کر دیا گیا، تاہم اندرونی اختلافات اور قیادت میں بار بار تبدیلیوں نے منصوبے کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔
منصوبے کے سابق ڈائریکٹر “ظہیرالدین بابر” کو صوبائی وزیر زراعت سے اختلافات کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا، اور یہ عہدہ اضافی چارج کے طور پر ایک مصروف چیف اکانومسٹ کو دے دیا گیا، جو پہلے ہی سالانہ ترقیاتی پروگرام اور دو دیگر منصوبوں کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
رابطہ کرنے پر امجد معراج نے کہا کہ وہ منصوبے کے “پروجیکٹ کوآرڈینیٹر و پروجیکٹ منیجر” ہیں، حالانکہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق “پروجیکٹ منیجر” کا کوئی عہدہ پی سی-I میں موجود نہیں۔ امجد معراج نے منصوبے کے مقاصد کی تکمیل کی امید ظاہر کی اور یورپی یونین سے ملنے والے 1.5 ملین یورو کے اضافی فنڈز کا بھی حوالہ دیا۔ جبکہ منصوبے کے ایمپلائمنٹ منیجر “حمید نواز” نے یو ای ٹی پشاور اور ٹیوٹا کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تصدیق کی، تاہم ایڈوانس ادائیگی کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
اسی منصوبے میں 550 پروفیشنل فارمر آرگنائزیشنز (پی ایف اوز) قائم کیے جائیں گے اور ہر ایک پی ایف او میں چار سو کے لگ بھگ بڑے زمیندار شامل ہوں گے۔ ہر پی ایف او کے اکاؤنٹ میں تقریباً 90 ہزار ڈالر جمع کیے جائیں گے، جہاں سے حسبِ ضرورت زمینداروں کو قرض دیا جائے گا، اور زمیندار منافع میں سے کچھ رقم دوبارہ پی ایف او کے اکاؤنٹ میں جمع کرائیں گے۔ اس طرح یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس منصوبے سے حاصل ہونے والا مجموعی منافع 7 ارب 98 کروڑ 80 لاکھ روپے ہوگا۔
سعدیہ کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، تاہم کامیابی نہ ہو سکی۔