بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوول رواں ماہ کے آخر میں روس کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جو کہ امریکا کے لیے ایک پیغام ہے کہ بھارت اپنے اسٹرٹیجک پارٹنرز سے الگ نہیں ہو سکتا، اس حوالے سے اسے امریکی پابندیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ بھارت کے اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کا یہ دورہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بھارت، توانائی اور دفاع کے شعبوں میں روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے سرگرم نظر آ رہا ہے، باوجود اس کے کہ امریکا کی جانب سے شدید دباؤ اور ممکنہ اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
دورے کی اہمیت
روس کا خام تیل اس وقت بھارت کی کل درآمدات کا تقریباً 35 سے 40 فیصد بنتا ہے۔ بھارت حکام نے دورہ روس کا اعلان کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ روسی تیل کی خریداری خالصتاً معاشی بنیادوں پر ہے اور وہ روس سے تیل کی خریداری روکنا نہیں چاہتا بلکہ اسے آگے بڑھانا چاہتا ہے، یعنی قیمت، فراہمی کا تسلسل اور قابلِ اعتماد ترسیل، جغرافیائی سیاست پر مبنی ہونے کے علاوہ بھارت کے اپنے مفاد میں ہے۔
دفاعی تعاون میں توسیع
واضح رہے کہ بھارت اس وقت دنیا میں روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، بھارتی دفاعی نظام میں S‑400 ایئر ڈیفنس سسٹم، ایس یو، 30 ایم کے آئی لڑاکا طیارے، کروز میزائل، جدید فریگیٹس اور نیوکلیئر سب میرین جیسے روسی ہتھیار مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
بھارتی عہدیداروں کا دورہ روس، امریکا کے لیے سفارتی پیغام
واضح رہے کہ بھارت ان دوروں کے ذریعے یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے ’خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری‘ کو اہم سمجھتا ہے۔ وزیر خارجہ جے شنکر بارہا کہہ چکے ہیں کہ بھارت-روس تعلقات گہرے تاریخی روابط پر مبنی ہیں اور وقت کی آزمائش پر پورے اُترے ہیں۔
اسٹریٹجک خودمختاری کا مظاہرہ
بھارت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ روسی تجارت کو اچانک بند نہیں کر سکتا، چاہے مغرب کی جانب سے کوئی بھی پابندیاں عائد کی جائیں۔ وزارت خارجہ کے مطابق، روس کے ساتھ تعلقات بھارت کی قومی ضروریات پر مبنی ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ پر، بھارت کی اس پالیسی کو ایک ’مستحکم اور وقت کی آزمودہ شراکت داری‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کی سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش
بھارت کے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کے ان ممکنہ دوروں اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت، امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے بھی، روس کے ساتھ تعلقات کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے، خاص طور پر توانائی اور دفاع جیسے اہم شعبوں میں۔ اگرچہ امریکا کی طرف سے ممکنہ محصولات اور تجارتی تناؤ کے خدشات ہیں امریکا کی طرف سے اسے مزید پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دفاعی اور توانائی شراکت داری کا مستقبل
روس اور بھارت دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف روایتی دفاعی تعاون جاری ہے بلکہ تجارت، زراعت، فارماسیوٹیکل، جوہری توانائی اور دیگر ابھرتے ہوئے شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ دونوں حکومتیں 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 100 ارب امریکی ڈالر تک پہنچانے کا ہدف رکھتی ہیں۔
جے شنکر اور اجیت ڈوول کے یہ دورے اس بات کا اعادہ ہیں کہ بھارت آپریشن سندور میں ناکامی کے بعد خطے میں تنہائی کا شکار ہو گیا ہے اور وہ اپنے پرانے پارٹنرز کے ساتھ اپنی قربتیں مزید بڑھانا چاہتا ہے۔