برطانیہ کے معروف جریدے ’فنانشل ٹائمز‘ کی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی قربت کو ’حیران کن پیش رفت‘ قرار دیا گیا ہے، جس پر بھارت نے خاص طور پر خطے میں کشیدگی اور تجارتی عدم توازن کے تناظر میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے‘۔
فانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس موسمِ گرما میں 2 اہم دورے کیے۔ ان میں امریکا میں یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کی ریٹائرمنٹ تقریب میں شرکت اور سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک 2 گھنٹے کی نجی ملاقات شامل ہے۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جنہیں دہائیوں کی بدترین جھڑپیں قرار دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے ایک واضح حکمتِ عملی کے تحت امریکا میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو مائیکل کگل مین نے کہا کہ ’ یہ تعلقات واقعی حیران کن انداز میں دوبارہ بحال ہوئے ہیں‘، اسے ایک نئی شروعات کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے بڑی مہارت سے ایک غیر روایتی صدر سے تعلقات استوار کیے ہیں‘۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان کی اس حکمتِ عملی میں انسداد دہشتگردی تعاون، ٹرمپ کے کاروباری نیٹ ورک سے روابط اور توانائی، معدنی وسائل اور کرپٹو کرنسی کے شعبوں میں معاہدے شامل ہیں۔ مارچ میں پاکستان نے داعش خراسان کے ایک مشتبہ رکن کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا، جس پر 2021 میں کابل ایئرپورٹ دھماکے کا الزام تھا۔ ٹرمپ نے اس اقدام کی تعریف اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بھی کی۔
رپورٹ میں ایک اور اہم پیش رفت کا ذکر کیا گیا ہے، جس کے تحت اپریل میں پاکستان کی کرپٹو کونسل اور ٹرمپ کی حمایت یافتہ کرپٹو کرنسی کمپنی ورلڈ لیبرٹی فنانشل کے درمیان معاہدہ ہوا۔ کمپنی کے شریک بانی نے پاکستان میں معدنی وسائل کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
بھارت نے اس صورتِ حال پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے بھارت پر درآمدی ٹیرف 50 فیصد کر دیا گیا، جبکہ پاکستان پر یہ صرف 19 فیصد ہے، جس پر نئی دہلی میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ان دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ امریکا نے مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں ثالثی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی براہِ راست فوجی رابطوں کے ذریعے طے پائی تھی۔
یہ تمام تبدیلیاں جنوبی ایشیا میں ایک نئے سفارتی توازن کی طرف اشارہ کر رہی ہیں، جہاں پاکستان نئے مواقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور بھارت دفاعی پوزیشن میں نظر آ رہا ہے۔