حکومت کا نئے گیس کنیکشنز پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ مگر فیس میں ہوشربا اضافہ

حکومت کا نئے گیس کنیکشنز پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ مگر فیس میں ہوشربا اضافہ

وفاقی حکومت نے نئے گیس کنیکشنز پر عائد طویل مدتی پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے تحت اب نئے صارفین کو گیس کی فراہمی درآمدی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے مہنگے نرخوں، تقریباً 3,900 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) پر کی جائے گی، جو کہ سابقہ کنیکشن فیس سے تقریباً 4 گنا زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار سے تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت

میڈیا رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اس سلسلے میں ایک سمری وفاقی کابینہ کو بھجوا دی گئی ہے، جس میں پہلے مرحلے میں ایک لاکھ 20 ہزار نئے گھریلو کنیکشنز دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

ان کنیکشنز کے لیے ترجیح ان درخواست گزاروں کو دی جائے گی جنہیں پہلے ڈیمانڈ نوٹس جاری کیے گئے تھے یا جنہوں نے فوری فیس ادا کی تھی، مگر بعد میں پابندی کی وجہ سے کنیکشن حاصل نہ کر سکے۔

ماضی میں ترجیحی بنیادوں پر کنیکشن حاصل کرنے کے لیے صارفین 25 ہزار روپے ادا کرتے تھے، جب کہ عام فیس 5 سے 7 ہزار روپے تھی۔ اب نئی پالیسی کے تحت کنیکشن فیس کو بڑھا کر 40 سے 50 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور صارفین کو ری-گیسیفائیڈ ایل این جی (آر ایل این جی )کے سرکاری نرخوں پر بل دیا جائے گا، جو کہ ٹیکس سے پہلے تقریباً 3,200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور ٹیکس سمیت 3,900 سے 4,000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 35 لاکھ سے زیادہ نئے گیس کنیکشنز کی درخواستیں زیر التوا ہیں، جب کہ 2.5 لاکھ کے قریب وہ درخواست گزار بھی شامل ہیں جنہیں ماضی میں ترجیحی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ نئی پالیسی کے تحت ان افراد کو کنیکشن کے لیے حلف نامہ دینا ہوگا کہ وہ ماضی کے دعوؤں یا فیس میں اضافے کے خلاف عدالت سے رجوع نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں:حکومت کا عوام کو ایک اور جھٹکا، گیس کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ زیر غور

گیس کنیکشنز پر پابندی پہلی بار 2009 میں لگائی گئی تھی، جسے 2015 میں جزوی طور پر ختم کیا گیا، لیکن 2022 میں ایک بار پھر گیس قلت کے باعث بحال کر دیا گیا۔ تاہم، حالیہ دنوں میں وزیر اعظم شہباز شریف نے نئے کنیکشنز میں تاخیر پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین توانائی نے اس پالیسی پر خدشات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ ملک میں پہلے ہی گیس کی شدید قلت ہے۔ سوئی نادرن گیس جیسے ادارے پہلے ہی گھریلو صارفین کو گیس محدود اوقات (صبح، دوپہر، رات) میں فراہم کر رہے ہیں۔

پالیسی میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ درآمدی ایل این جی کی زیادہ مقدار ہے، جس سے گیس نیٹ ورک پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے۔ وزارت خزانہ نے بھی تجویز دی تھی کہ گیس کنیکشنز پر پابندی ختم کر کے طلب میں اضافہ کیا جائے تاکہ ایل این جی کی اضافی مقدار کو استعمال میں لایا جا سکے۔

پاکستان نے 2015 سے 2021 کے دوران قطر سمیت دیگر ممالک کے ساتھ مہنگے طویل مدتی ایل این جی معاہدے کیے، جن کے تحت درآمد کی گئی گیس اب بجلی کے کارخانوں میں مکمل طور پر استعمال نہیں ہو رہی۔ 4 ’ضروری‘ بجلی گھروں کے لیے ایل این جی کے استعمال کی شرط 66 فیصد سے کم ہو کر 33 فیصد رہ گئی ہے اور اب ان پلانٹس کو بجلی کے قومی گرڈ سے باہر رکھا جا رہا ہے، جس سے پاور سیکٹر کا گردشی قرض پیٹرولیم سیکٹر پر منتقل ہو رہا ہے۔

مزید یہ کہ 300 ’ایم ایم سی ایف ڈی‘ سے زیادہ مقامی گیس فیلڈز کو بند کر کے درآمدی ایل این جی کے لیے جگہ بنائی جا رہی ہے، جس سے مقامی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور توانائی کمپنیوں کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال مستقبل کی گیس تلاش اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:گیس مزید مہنگی، ای سی سی نے قیمتوں کے نئے فریم ورک کی منظوری دیدی

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے حال ہی میں 75 ارب روپے کی رقم گیس کمپنیوں کو 2015–22 کے لیے ادا کرنے کی منظوری دی ہے، جب کہ 2023–25 کی رقم کو آئندہ نرخوں میں ایڈجسٹ کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت مہنگے نرخوں پر گیس کی فراہمی کو اس لیے بھی درست قرار دے رہی ہے کہ ایل پی جی (ایل پی جی )کا فی ایم ایم بی ٹی یو نرخ 5,300 روپے ہے، جو کہ ملک کے غریب اور دور دراز علاقوں میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں درآمدی ایل این جی پر مبنی پائپ گیس 35 سے 40 فیصد سستی ہو گی۔

یہ مجوزہ پالیسی پاکستان کی توانائی حکمتِ عملی میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، جو ایک طرف عوامی مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش ہے، تو دوسری جانب مالی، اقتصادی، اور بین الاقوامی معاہدہ جاتی دباؤ کو متوازن کرنے کی ایک مشکل کوشش بھی۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *