بھارت کے یومِ آزادی پر وزیراعظم نریندر مودی کی تقریر نے سیاسی ہلچل مچا دی ہے، اُن کے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی تعریف اور سرحدی دراندازی کے بیان کو اپوزیشن جماعتوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے مودی کی تقریر کو نہ صرف تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قرار دیا بلکہ اُن کی حکومت کی ناکامی کا کھلا اعتراف بھی قرار دیا۔
دراندازی کا بیان، اپنی ناکامی کا اعتراف؟
وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں دراندازی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر اپوزیشن نے شدید ردعمل دیا۔ ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رہنما کونال گھوش نے کہا کہ ’دراندازی روکنے کی ذمہ داری مرکزی حکومت، وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع اور بی ایس ایف پر ہے۔ اگر اب بھی دراندازی ہو رہی ہے تو یہ مودی حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے‘۔
کونال گھوش نے مزید کہا کہ ’بی ایس ایف کے مکمل کنٹرول کے باوجود دراندازی کا الزام لگانا دراصل اپنی حکومت اور اداروں کی نااہلی کا کھلا اعتراف ہے‘۔
آر ایس ایس کی تعریف، آزادی کی توہین یا تاریخ کا مسخ چہرہ؟
مودی کی جانب سے آر ایس ایس کی تعریف کو اپوزیشن نے سختی سے مسترد کیا ہے۔ کرناٹک کے وزیر اور کانگریس رہنما پریانک کھڑگے نے مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’آر ایس ایس وہی لوگ ہیں جنہوں نے 52 سال تک بھارتی پرچم نہیں لہرایا۔ یومِ آزادی پر ان کی تعریف بھارتی عوام کی قربانیوں کی توہین ہے‘۔
کانگریس کے ایم پی گر جیت سنگھ اوجلا نے کہا کہ ’آر ایس ایس انگریزوں کے ساتھ کھڑی رہی اور آزادی کے بعد بھی ترنگا اپنے ہیڈکوارٹر پر نہیں لہرایا۔ ان کے غنڈے دراصل انگریزوں کے ایجنٹ اور ٹاؤٹ تھے‘۔
’آر ایس ایس وطن پرست نہیں، تقسیم کا ایجنڈا ہے‘،کانگریس
مہاراشٹر کانگریس کے نائب صدر دلوائی نے بھی سخت ردعمل دیا اور کہا کہ ’وزیراعظم کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے، آر ایس ایس نہ محبِ وطن ہے نہ عوام کی خدمت گزار، ان کا اصل ایجنڈا عوام کو تقسیم کرنا اور ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ’آج آر ایس ایس ہندوتوا کی بات کرتی ہے، جبکہ ماضی میں یہ انگریزوں کی ایجنٹ تھی۔ مودی دراصل آر ایس ایس کو محبِ وطن ثابت کر کے تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں‘۔
’جمہوری بھارت کو انتہاپسند قلعے میں بدلا جا رہا ہے‘
اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی حکومت نے بھارت کو جمہوری اقدار سے دور کر کے ایک ہندو انتہاپسند ریاست میں بدل دیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی پالیسیاں ملک کو نفرت، تقسیم اور بدامنی کی راہ پر ڈال چکی ہیں، اور وزیراعظم اپنے بلند و بانگ دعوؤں سے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی محاذ آرائی میں شدت
مودی کی تقریر نے نہ صرف اپوزیشن کو متحد کر دیا ہے بلکہ ایک بار پھر آر ایس ایس کے کردار اور سرحدی سلامتی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ پارلیمنٹ سمیت ملک بھر کی سیاسی فضا کو مزید گرما سکتا ہے، جہاں جمہوریت، تاریخ اور حب الوطنی کے مفاہیم پر نئی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔