امریکا کے وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کے چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات امریکا کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے بھارت کو تجویز دی ہے کہ اگر بھارت چاہتا ہے کہ اسے امریکا کا اسٹریٹجک شراکت دار سمجھا جائے، تو اُسے بھی ویسا ہی برتاؤ کرنا ہوگا‘۔ انہوں نے خبردار کیا کہ روس اور چین سے بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے امریکا کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجی کی منتقلی ایک خطرناک فیصلہ ہو سکتا ہے۔
ادھر امریکا نے بھارت پر روسی تیل کی خریداری بند کرنے کے لیے دباؤ میں شدت پیدا کر دی ہے۔ پیٹر ناوارو نے نئی دہلی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ماسکو کی جنگی معیشت کو مالی معاونت فراہم کر رہا ہے اور مغربی پابندیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
پیر کو فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک سخت مضمون میں پیٹر ناوارو نے کہا کہ بھارت ’روسی تیل کے لیے ایک عالمی کلیئرنگ ہاؤس‘ کے طور پر کام کر رہا ہے، جو پابندیوں والے خام تیل کو ریفائن کرکے مہنگے برآمدی مصنوعات میں تبدیل کر رہا ہے اور روس کو ضروری ڈالرز فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’ روسی خام تیل پر بھارت کا انحصار موقع پرستی پر مبنی ہے اور دنیا کی جانب سے ولادیمیر پیوٹن کی جنگی معیشت کو الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے‘۔
واضح رہے کہ روس کے تیل کا دوسرا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے، جو اپنی ایندھن کی ضروریات کا 30 فیصد سے زیادہ ماسکو سے حاصل کرتا ہے۔ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد روس کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت نے روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں اپنے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
امریکی مشیر کی جانب سے یہ تنقید اس وقت سامنے آئی ہے جب بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تیل کی خریداری کے معاملے پر بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید بگڑ گئے۔
یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔’مودی کسی بھی ایسی پالیسی کے خلاف دیوار بن کر کھڑے ہوں گے جو ہمارے کسانوں کے مفادات کو نقصان پہنچائے‘۔ جب بات ہمارے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کی ہو تو بھارت کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ امریکا اور یورپی یونین خود بھی روس کے ساتھ تجارتی روابط رکھتے ہیں۔
یورپی یونین کی 2024 میں روس کے ساتھ تجارت 67.5 ارب یورو (تقریباً 77.9 ارب ڈالر) رہی، جو 2021 میں 257.5 ارب یورو (297.4 ارب ڈالر) تھی، لیکن اب بھی یورپ روسی گیس کی بڑی مقدار خرید رہا ہے۔
فِن لینڈ کے تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے مطابق یورپی یونین نے جنگ کے آغاز سے اب تک روسی گیس پر تقریباً 105.6 ارب یورو خرچ کیے ہیں، جو روس کے 2024 کے فوجی بجٹ کے 75 فیصد کے برابر ہے۔
پیٹر ناوارو نے اپنے مضمون میں واشنگٹن کے اس خدشے کو بھی اجاگر کیا کہ بھارت، چین اور روس کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے، جو امریکا کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’اگر بھارت چاہتا ہے کہ اسے امریکا کا اسٹریٹجک شراکت دار سمجھا جائے، تو اُسے بھی ویسا ہی برتاؤ کرنا ہوگا‘۔ انہوں نے خبردار کیا کہ روس اور چین سے بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے امریکا کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجی کی منتقلی ایک خطرناک فیصلہ ہو سکتا ہے‘۔
ادھر وزیر اعظم مودی رواں ماہ کے آخر میں چین کے دورے پر جانے والے ہیں، جبکہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی بھارت کا دورہ کر چکے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان متنازع سرحدی امور پر بات چیت ہو سکے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بھارت پر روسی تیل خریدنے کے الزامات لگائے ہوں۔ رواں ماہ کے آغاز میں وائٹ ہاؤس کے نائب چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے بھی کہا تھا کہ ’روسی خام تیل کی خریداری ناقابل قبول‘ہے۔
دوسری طرف، امریکا اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ 25 سے 29 اگست کے درمیان نئی دہلی میں امریکی تجارتی مذاکرات کاروں کا متوقع دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے، جس سے ٹیرف اور تجارتی عدم توازن پر کوئی فوری پیش رفت کی امید ختم ہو گئی ہے۔
2024 میں بھارت اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تجارت 128 ارب ڈالر رہی، جبکہ امریکا نے بھارت کے ساتھ اپنے 45 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بھارت اپنے مؤقف پر قائم ہے اور روس کے ساتھ پرانے اسٹریٹیجک تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے مغرب کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جیسے جیسے دنیا میں جغرافیائی سیاسی تقسیم گہری ہو رہی ہے، بھارت کی ’توازن کی پالیسی‘ شدید عالمی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔