قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف سیاسی قیادت، ماحولیاتی غفلت اور ادارہ جاتی کمزوریوں پر کڑی تنقید کی ۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں سیلابی صورتحال پر خطاب کرتے ہوئے ملک میں ماحولیاتی تباہی، آبی گزرگاہوں پر تجاوزات اور سیاسی رویوں پر سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو ہم اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے امداد مانگتے ہیں، لیکن اپنے اعمال کی طرف نہیں دیکھتے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ان کے حلقے میں دو دریا داخل ہوتے ہیں اور آبی گزرگاہوں پر اسکیمیں بنا کر انہیں بند کیا گیا ہے۔ یہ وقت خود احتسابی کا ہے۔ ہم نے اب تک کتنی تجاویزات کو ختم کیا؟
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بہت امیر لوگ اپر ہاؤس میں بیٹھے ہیں، سب جانتے ہیں وہ وہاں کیسے پہنچے۔ جب سیاسی قیادت کا یہ حال ہو تو عوام کسے رول ماڈل بنائے؟
وزیر دفاع نے انکشاف کیا کہ دریا کے کنارے ہوٹل سیاستدانوں نے خود بنوائے۔ تمام بڑے ڈیمز آمرانہ ادوار میں بنے، کیونکہ ان کے پاس فیصلے نافذ کرنے کی طاقت تھی، سیاسی حکومتوں میں صرف دکانداری چلتی ہے۔
خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے چھوٹے ڈیمز نہ بنائے تو پانی بوند بوند کو ترس جائیں گے۔ بھاشا اور مہمند ڈیم کے بننے کا انتظار کرتے کرتے ہمارا حال کیا ہو جائے گا؟
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیکڑوں درجنوں چھوٹے ڈیمز بنائیں جو دو سے تین سال میں مکمل ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا رویہ (attitude) بدلنے کی ضرورت ہے، سیاسی دکانداری بند کریں اور قومی آفات کا نیشنل ریسپانس ہونا چاہیے۔
لاہور، نارووال اور سیالکوٹ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور میں تو پانی نکل گیا، لیکن سیالکوٹ اور نارووال میں چھ دن تک پانی کھڑا رہا، یہ تجاویزات کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے بلدیاتی اداروں کی غیر فعالیت پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی ادارے تو موجود ہی نہیں۔ ہم نے انہیں صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جبکہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا چاہیے۔