غزہ جنگ کو آج دوسال کا عرصہ مکمل ہوگیا مگر سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک سال سے 483 بیانات دینے کے باوجود فلسطین اور اسرائیل بارے خاموش ہیں۔
اگرچہ سابق وزیراعظم کا دعوٰی ہے کہ وہ 80 فیصد پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہیں تاہم ایک سال سے فلسطین پر خاموشی معنی خیز سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔
اب سوشل میڈیا صارفین نے بھی سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں اور ایک سوال یہ شدت سے گردش کررہا ہے کہ ایک سال میں 483 مختلف بیانات دینے کے باوجود عمران خان نے فلسطین کے معاملے پر کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے ؟ کچھ صارفین اس رویے پر نالاں نظر آتے ہیں اور کچھ تنقید کرتے نظر آرہے ہیں ۔
کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ عمران خان کے لیے صرف اپنی سیاست اہم ہے اور کچھ حیران ہیں کہ ایسے معاملے پر جس میں وہ اقوام متحدہ تک آواز اٹھا چکے ہیں سابق وزیراعظم اب بات کیوں نہیں کرتے ، ہم سوشل میڈیا صارفین کے جذبات اور کمنٹس آپ کے ساتھ شیر کرتے ہیں ۔
عوامی بیانات کی تعداد
عمران خان نے ستمبر 2023 سے ستمبر 2024 کے دوران مختلف موضوعات پر 483 عوامی بیانات، ویڈیوز یا عدالتی گفتگو کے ذریعے مؤقف اختیار کیا۔
سیاسی بیانات
ان بیانات میں زیادہ تر توجہ اندرونی سیاسی حالات، احتجاج ، عدالتی مقدمات، آئین کی بالادستی، فوج کے کردار اور پی ٹی آئی کی تنظیم نو پر مرکوز رہی۔
فلسطین-اسرائیل جنگ کا آغاز
اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری کشیدگی 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی، جس میں اب تک 60ہزار کے لگ بھگ فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں اور لاکھوں زخمی و لاپتہ ہیں۔
سوشل میڈیا پر خاموشی
ماہرین کے مطابق عمران خان ماضی میں فلسطین کے حق میں متعدد بار آواز بلند کر چکے ہیں، تاہم اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل-غزہ جنگ پر ان کی خاموشی مختلف حلقوں میں سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
عمران خان نے 2019–2022 کے دورِ حکومت میں فلسطین کی حمایت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، OIC اجلاس اور دیگر عالمی فورمز پر کئی بار بیانات دیے، جس میں دو ریاستی حل اور انسانی حقوق کی بحالی پر زور دیا گیا۔
عمران خان کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس (بشمول X (سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک) پر بھی فلسطین یا غزہ جنگ کے حوالے سے کوئی بیان، ہمدردی یا مذمت کی پوسٹ سامنے نہیں آئی۔
عوامی و سوشل عالمی ردعمل
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے عمران خان کے اس خاموش رویے پر سوالات اٹھا ے جارہے ہیں جس میں کہا گیا کہ عالمی انسانی بحران پر مؤقف دینا سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔