پنجاب میں ’محفوظ بسنت‘ منانے کی مشروط اجازت پرغورشروع کر دی گیا ہے اور اس کے لیے قانون میں ترامیم کی تجاویز زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بسنت کے شوقین افراد کے لیے ایک بڑی خبر سامنے آئی ہے، کیونکہ پنجاب حکومت کی جانب سے محفوظ اور محدود بسنت کی مشروط اجازت دینے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ ایک اہم اجلاس میں زیرغور آیا جس میں جشن بہاراں کے دوران مخصوص دنوں اور مخصوص علاقوں میں ثقافتی سرگرمی کے طور پر بسنت کی اجازت دینے سے متعلق تجاویز پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں پتنگ بازی پر پابندی سے متعلق موجودہ قانون میں ترامیم کے مجوزہ نکات کا جائزہ لیا گیا۔ ان ترامیم کا مقصد بسنت کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، جو ماضی میں خطرناک ڈوروں کے باعث قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی ہیں۔
محفوظ بسنت کی اجازت کے شرائط
تجویز دی گئی ہے کہ اگر بسنت کو محدود پیمانے پر اجازت دی جاتی ہے تو اس کے لیے ضلع کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سے این او سی (اجازت نامہ) لینا لازمی ہوگا۔ این او سی صرف مخصوص چھت یا احاطے کے لیے دیا جائے گا اور اس جگہ کے مالک کو ایک بیانِ حلفی جمع کرانا ہوگا، جس میں وہ حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی کرائے گا۔
خطرناک ڈور پر مکمل پابندی برقرار رہے گی جبکہ دھاتی ڈور، تندی یا مانجھا لگی ڈور کے استعمال پر سخت پابندی برقرار رہے گی، تجویز میں واضح کیا گیا ہے کہ ان اشیا کی تیاری، خرید و فروخت یا استعمال کی کسی صورت اجازت نہیں ہوگی۔
رجسٹریشن اور نگرانی کا نظام
پتنگ سازوں، فروخت کنندگان اور سپلائرز کے لیے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں نہ صرف رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی بلکہ قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی، جس میں قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
جشن بہاراں کی ثقافتی حیثیت بحال کرنے کی کوشش
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بسنت لاہور اور پنجاب کی ثقافت کا حصہ رہی ہے اور اگر اسے محفوظ بنایا جا سکے تو یہ نہ صرف سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ تاہم، ماضی کے تلخ تجربات اور قیمتی جانوں کے ضیاع نے اس پر پابندی کو ناگزیر بنا دیا تھا۔
اب یہ تجاویز ابتدائی مرحلے میں ہیں اور حتمی فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور کابینہ کی منظوری کے بعد ہی کیا جائے گا۔ اگر یہ تجاویز منظور ہو جاتی ہیں تو پنجاب میں کئی برس بعد ایک بار پھر بسنت منانے کی روایت بحال ہو سکتی ہے، تاہم اس بار سخت قوانین، این او سی نظام اور مکمل نگرانی کے ساتھ بسنت منائی جا سکتی ہے۔
عوامی سطح پر اس خبر کو مخلوط ردعمل ملا ہے۔ جہاں ایک طرف بسنت کے شوقین افراد نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے، وہیں کئی شہریوں نے ماضی کے حادثات کا حوالہ دیتے ہوئے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ثقافت اور تحفظ کے درمیان کس طرح توازن قائم کرتی ہے اور آیا بسنت واقعی ایک محفوظ تہوار کے طور پر دوبارہ زندہ ہو پاتا ہے یا نہیں۔