پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سہیل آفریدی پیر کو خیبرپختونخوا کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے، جنہوں نے صوبائی اسمبلی میں 90 ووٹ حاصل کیے۔ ان کا انتخاب اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ اور سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنداپور کے استعفے کی قانونی حیثیت سے متعلق تنازع کے سائے میں ہوا۔
اسمبلی کا اجلاس اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابرسلیم سواتی کی زیر صدارت ہوا، جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان نے شرکت نہیں کی۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ خان نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے انتخابی عمل کو ‘غیرقانونی’ قرار دیا اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔
سہیل آفریدی، جو کہ صوبائی سیاست میں ایک نیا چہرہ ہیں، نے 2015 میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور 2024 کے عام انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔ ان کی نامزدگی اور بعد ازاں کامیابی پر وفاقی حکومت نے شدید ردعمل دیا، اور پی ٹی آئی پر شدت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام لگایا۔
یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے علی امین گنداپور کا استعفیٰ مسترد کرتے ہوئے دستخط کی تصدیق پر اعتراضات اٹھائے۔ گنداپور نے 8 اکتوبر کو مبینہ طور پر قید میں موجود پی ٹی آئی بانی عمران خان کی ہدایت پر استعفیٰ دیا، اور بعد ازاں 11 اکتوبر کو دوسرا استعفیٰ بھیجا۔
اسپیکر بابر سلیم سواتی نے گورنر کے اعتراضات کو ‘غیر آئینی’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گنداپور کے دونوں استعفے آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 8 کے تحت دیے گئے اور دونوں پر ان کے دستخط موجود ہیں، جن میں کوئی فرق نہیں۔
” اسپیکر نے کہا کہ ’میری ذمہ داری ہے کہ آئین اور قانون کا تحفظ کروں‘۔ ’آئینی امور لوگوں کی خواہشات پر نہیں، بلکہ آئین کے مطابق چلائے جاتے ہیں‘۔
نومنتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ پرچی سے وزیراعلیٰ نہیں بنا، میں محنت کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اپنے لیڈر کا شکر گزار ہوں، میرا تعلق قبائلی ضلع سے ہے۔ سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ میرا تعلق قبائلی اضلاع کے متوسط خاندان سے ہے، میرا نہ والد، نہ بھائی اور نہ رشتہ دار سیاست دان ہیں۔
سہیل آفریدی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے سے پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہے، لیکن وفاقی اور صوبائی قیادت کے درمیان کشیدگی اور انتخابی عمل پر اٹھنے والے سوالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صوبے میں سیاسی ہلچل جاری رہنے کا امکان ہے۔