بچیوں کے حقوق کے فروغ کے لیے بیداری کی چھٹی سالانہ صوبائی کانفرنس کا انعقاد

بچیوں کے حقوق کے فروغ کے لیے بیداری کی چھٹی سالانہ صوبائی کانفرنس کا انعقاد

بچیوں کے حقوق کے حوالے سے چھٹی سالانہ صوبائی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں چکوال، خوشاب، بھکر، چنیوٹ، لیہ اور دیگر اضلاع سے اسکولوں کی بچیوں، سول سوسائٹی، اساتذہ اور کمیونٹی نمائندوں نے شرکت کی۔

تنظیم بیداری کی جانب سے منعقدہ تقریب کی مہمانِ خصوصی پارلیمانی سیکرٹری برائے اسکول ایجوکیشن نوشین عدنان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ ان تمام بچیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں جو دور دراز شہروں سے لاہور آئیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی، اور ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ کتاب سے دوستی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم ہی وہ واحد کنجی ہے جو خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیداری خواتین کو مضبوط بننے کا حوصلہ دے رہی ہے اور انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دکھا رہی ہے۔

ممبران صوبائی اسمبلی مہوش سلطان اور راحیلہ خادم حسین نے بچیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت خواتین کے تحفظ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہے، اور اس مقصد کے لیے مؤثر قانون سازی کے ساتھ خصوصی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔

معروف اداکار اور ٹی وی میزبان توثیق حیدر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمیں ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں بیٹی کو بھی آگے بڑھنے کے برابر مواقع ملیں۔ چائلڈ رائٹس رہنما سلیم ملک نے کہا کہ لڑکیاں اور لڑکے برابر انسان ہیں، اور ضروری ہے کہ لڑکیوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ہر میدان میں خود فیصلے کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے صنم جاوید کی گرفتاری کا نوٹس لے لیا،آئی جی سے رپورٹ طلب

ملالہ فنڈ کی منیجر انعم اکرم نے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں، جس کے لیے ہم حکومتوں، سول سوسائٹی اور کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ثمینہ نواز نے بتایا کہ پنجاب میں پیف کے 17 ہزار اسکول مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد ہے کہ کوئی بچہ اسکول سے باہر نہ رہے۔

کانفرنس میں اسکولوں کی بچیوں اور ہنرمند خواتین نے اپنے مسائل اور کامیابیوں کو شیئر کیا۔ بیداری کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عنبرین عجائب نے پنجاب بھر سے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خواتین و بچیوں کے حقوق کے تحفظ اور مؤثر قانون سازی کے لیے جاری کوششوں پر روشنی ڈالی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی شہری کن ممالک کا بغیر ویزا کے سفر کر سکتے ہیں؟ فہرست سامنے آگئی

کانفرنس کے اختتام پر کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے اور اسکولوں میں بچیوں کے لیے حفظانِ صحت کی سہولیات کی فراہمی سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے اراکینِ اسمبلی نے سراہا اور ہر فورم پر اس کے لیے آواز اٹھانے کی یقین دہانی کرائی۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *