بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی آسیان آسیان سربراہی اجلاس میں غیرحاضری نے نئی دہلی کی سفارتی پوزیشن پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عالمی سطح پر بھارت کی مودی حکومت اس وقت اعتماد کے بحران کا شکار ہے، جبکہ حالیہ عرصے میں اسے متعدد بین الاقوامی محاذوں پر تنقید اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
رپورٹس کے مطابق مودی حکومت کی سفارتی مشکلات معرکہ حق میں بدترین شکست کے بعد مزید بڑھ گئی ہیں، اور اب یہ بحران بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ملائیشیا میں ہونے والی آسیان سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مودی اس اہم اجلاس میں ذاتی طور پر شرکت نہیں کریں گے بلکہ آن لائن شرکت کریں گے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں مودی کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے امکانات بھی ختم ہو گئے ہیں۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مودی نے اپنی غیرحاضری کی وجہ دیوالی کی تعطیلات کو قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کی غیرحاضری کے پیچھے اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔ ان کے مطابق بھارت کو اس وقت بین الاقوامی دباؤ، تجارتی تنازعات اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ رائٹرز کے مطابق بھارت اور امریکہ کے تعلقات روسی تیل کی درآمدات اور امریکی ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کا بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقات سے گریز دراصل اس خوف کا نتیجہ ہے کہ ان کی حکومت کے بیانیے اور پروپیگنڈا کو عالمی سطح پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم اب ورچوئل اسکرین کے پیچھے چھپنے پر مجبور ہو چکا ہے تاکہ عالمی قیادت کے سامنے اپنی پالیسیوں پر تنقید سے بچ سکے۔
سفارتی ماہرین کے مطابق مودی کی یہ غیرحاضری بھارت کے لیے ایک علامتی پسپائی ہے، جو نہ صرف اس کی عالمی ساکھ پر اثر ڈال سکتی ہے بلکہ آئندہ کے علاقائی اور تجارتی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔