خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ علی سہیل آفریدی کی قیادت میں 13 رکنی صوبائی کابینہ نے حلف اٹھا لیا، تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے دی گئی اہم ہدایات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق عمران خان نے واضح طور پر ہدایت دی تھی کہ خیبرپختونخوا کی کابینہ محدود رکھی جائے اور ارکان کی تعداد 5 سے 8 کے درمیان ہو۔ بانی چیئرمین کا مؤقف تھا کہ ’کابینہ سنگل ڈیجٹ سے زیادہ نہ ہو تاکہ حکومت مؤثر اور کم خرچ ہو‘۔ تاہم وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے 13 ارکان پر مشتمل کابینہ تشکیل دی‘۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک سینیئر رہنما نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے بعض مخصوص شخصیات کو کابینہ میں شامل نہ کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔ ان میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ خان، سابق وزیر شہرام ترکئی کے بھائی فیصل ترکئی اور سابق صوبائی وزیر شکیل خان شامل تھے۔ تاہم ان تینوں رہنماؤں کو کابینہ میں جگہ دی گئی ہے، جس سے پارٹی کے اندرونی حلقوں میں حیرت اور ناراضی پائی جا رہی ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے پارٹی کے چند سینیئر اور نظرانداز شدہ رہنماؤں کو بھی کابینہ میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی، مگر اُن کی تجاویز کو عملًا نظرانداز کر دیا گیا۔
دوسری جانب صوبائی وزیر مینا خان آفریدی نے اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کسی فردِ واحد کے بارے میں کوئی حتمی ہدایت نہیں دی تھیں۔ اُن کے بقول، ’عمران خان نے صرف یہ پیغام دیا تھا کہ کابینہ مختصر اور مؤثر رکھی جائے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو کابینہ کی تشکیل کا مکمل اختیار دیا گیا تھا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ میں نوجوانوں اور تجربہ کار وزرا دونوں کو نمائندگی دی گئی ہے، تاکہ انتظامی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔ ’عمران خان پارٹی چیئرمین ہیں، اگر وہ چاہیں تو کابینہ میں کسی بھی وقت ردوبدل کر سکتے ہیں‘۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق خیبرپختونخوا کابینہ کی تشکیل نے تحریک انصاف کے اندر بڑھتی ہوئی صف بندیوں کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ اگرچہ پارٹی قیادت اس اختلاف کو معمولی قرار دے رہی ہے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ معاملہ پارٹی کے اندرونی اتحاد کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔