حکومت نے 27ویں آئینی ترمیمی بل کو قومی اسمبلی میں آج (منگل) پیش کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ یہ اقدام سینیٹ میں بل کی ڈرامائی منظوری کے ایک روز بعد کیا جا رہا ہے، جس میں حزبِ اختلاف کے احتجاج، نعرے بازی اور دو ارکان کی بغاوت کے باوجود حکومت نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے منگل کے اجلاس کے لیے جاری کردہ ایجنڈے میں اس بل کو شامل کر لیا ہے۔ وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ ایوان میں یہ بل پیش کریں گے۔
سینیٹ آف پاکستان نے پیر کو دو تہائی اکثریت سے یہ بل منظور کیا، جب کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے ایک، ایک رکن نے اپنی پارٹی لائن کے خلاف حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔ سینیٹ کے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کی صدارت کی، جو شدید ہنگامہ آرائی، احتجاج اور اپوزیشن کے واک آؤٹ سے گونجتا رہا۔
اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں، نعرے لگائے اور کاغذات وزیر قانون کے ڈیسک کی جانب اچھالے۔ بعدازاں زیادہ تر اپوزیشن ارکان واک آؤٹ کر گئے، جس کے بعد حکومت نے بل کی باآسانی منظوری حاصل کر لی۔
یہ بل جسے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔ کئی ہفتوں سے اس بل نے ملک بھر میں سیاسی و قانونی بحث کو جنم دیا ہوا تھا، جب کہ قانونی ماہرین اور اپوزیشن رہنماؤں نے خبردار کیا تھا کہ یہ ترمیم عدالتی ڈھانچے اور آئینی توازن کو بنیادی طور پر بدل دے گی۔
27ویں آئینی ترمیمی بل کی اہم خصوصیات
یہ بل عدلیہ، انتظامیہ اور عسکری ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کراتا ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کا قیام
بل کے مرکزی نکات میں سے ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے، جو آئینی معاملات میں سب سے اعلیٰ عدالت ہوگی۔ یہ عدالت آئین کی تشریح کے معاملات میں سپریم کورٹ سے بالاتر ہوگی۔
ترمیم شدہ آرٹیکل 175A کے تحت عدالتی کمیشن میں اب جو اراکین شامل ہوں گے، ان میں چیف جسٹس آف پاکستان وفاقی آئینی عدالت، چیف جسٹس سپریم کورٹ، دونوں عدالتوں کے ایک، ایک سینیئر جج، وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں بشمول سپریم کورٹ پر لازم ہوں گے۔ آئینی نوعیت کے تمام زیرِ التواء مقدمات سپریم کورٹ سے منتقل کر دیے جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات ختم
بل کی سب سے اہم تبدیلی سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات کا خاتمہ ہے۔ سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 184، 186 اور 191A کو حذف کر دیا ہے۔ اب یہ اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دیا جائے گا۔
عدالتی تقرریوں اور تبادلوں میں اصلاحات
آرٹیکل 200 میں ترمیم کے تحت صدرِ مملکت کی ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی طاقت محدود کر دی گئی ہے۔ اب کوئی تبادلہ صرف عدالتی کمیشن کی سفارش پر ہی ممکن ہوگا۔
اسی طرح کوئی چیف جسٹس ہائی کورٹ کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا، کوئی جج اپنے چیف جسٹس سے سینیئر ہونے کی صورت میں اس طرح منتقل نہیں ہوگا کہ اس کی سینیارٹی متاثر ہو۔ تبادلہ قبول نہ کرنے والے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے نئے قواعد 60 دن میں بنائے جائیں گے، جن میں سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت دونوں کی نمائندگی شامل ہوگی۔
فوجی قیادت کے ڈھانچے میں تبدیلیاں
آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے فوجی کمانڈ کے نظام میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں آرمی چیف کا عہدہ تبدیل ہو کر کمانڈر آف ڈیفنس فورسز ہو جائے گا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم کر دیا جائے گا۔ وزیر اعظم، صدر کی مشاورت سے، کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کی تقرری کریں گے۔کمانڈر آف نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا نیا عہدہ قائم کیا جائے گا، جس کی تقرری ڈیفنس فورسز کے سربراہ کی سفارش پر ہوگی۔
وفاقی حکومت کو اب اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سینیئر فوجی افسران کو فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کے اعزازی مستقل عہدوں پر ترقی دے، جنہیں تاحیات مراعات اور قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
صدرِ مملکت اور فیلڈ مارشل کے لیے تاحیات استثنیٰ
آرٹیکل 248 میں ترمیم کے تحت صدرِ مملکت کو عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی تاحیات قانونی استثنیٰ حاصل ہوگا، بشرطیکہ وہ کوئی دوسرا سرکاری عہدہ قبول نہ کریں۔ فیلڈ مارشل کو بھی اسی آرٹیکل کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
آئین کے دیگر آرٹیکلز میں تبدیلیاں
بل میں متعدد آرٹیکلز، 42، 59، 63A، 68، 78، 81، 93، 100، 114، 130، 165A، 175 اور 175A میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور عدالتی ڈھانچے میں تبدیلیوں کو آئینی طور پر نافذ کیا جا سکے۔ تیسری شیڈول میں بھی ترمیم کی گئی ہے تاکہ چیف جسٹس، وفاقی آئینی عدالت کا حلف نامہ شامل کیا جا سکے۔
سیاسی ردعمل اور ممکنہ اثرات
بل کی منظوری نے ملک بھر میں سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے ‘عدلیہ پر حملہ’ اور ‘اختیارات کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش’ قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کی قیادت نے اپنے ان ارکان کو ‘جمہوری اصولوں سے انحراف’ کا مرتکب قرار دیا جنہوں نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔
دوسری جانب حکومتی وزرا نے اس پیش رفت کو ‘تاریخی اصلاحات’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل عدالتی نظام کو مؤثر بنانے میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے ‘عدالتی توازن بحال ہوگا’ اور ‘آئینی تشریح کے عمل میں واضحیت آئے گی۔’
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں گہرے اثرات ڈال سکتی ہے اور اختیارات کی تقسیم میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔
حکومت کو یقین ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوگی، جس کے بعد یہ آئینی ترمیم باضابطہ طور پر آئین کا حصہ بن جائے گی۔
اگر منظور ہو گئی تو 27ویں آئینی ترمیم پاکستان کی آئینی تاریخ میں سب سے بڑی تبدیلیوں میں شمار ہوگی، جو عدلیہ، انتظامیہ اور فوجی اداروں کے درمیان اختیارات کی نئی تعریف طے کرے گی۔