بنگلادیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے خلاف سنائے گئے عدالتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے جانبدار اور سیاست زدہ قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائے موت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عوامی لیگ کو سیاسی طور پر کمزور اور بے اثر کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے خلاف عائد کیے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ اب بھی انہیں تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔
عوامی لیگ کے کارکنوں کے نام جاری کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں حسینہ واجد نے کہا کہ ان کے خلاف کارروائی سیاسی انتقام کی ایک شکل ہے اور وہ زندہ ہوتے ہوئے اپنے خلاف کیے گئے ہر ظلم کا جواب دیں گی۔ انہوں نے کارکنوں کو یقین دلایا کہ وہ انصاف کے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی اور تمام ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گی۔
ادھر حسینہ واجد کے بیٹے شہید واجد سجیب نے بھی عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی والدہ اس فیصلے سے پریشان نہیں، وہ بھارت میں بھارتی فوج کی حفاظت میں موجود ہیں، اور عدالتی حکم سے ان کی سیاسی حیثیت یا مستقبل پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ بنگلادیش کی خصوصی عدالت، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل، نے سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم ثابت ہونے پر دو الزامات کے تحت سزائے موت اور دیگر تین الزامات پر عمر قید تک کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے سابق وزیرِاعظم داخلہ اسد الزمان کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم میں شریک ہونے کے سبب سزائے موت سنائی۔
تحقیقات کے دوران ریاست سے تعاون کرنے پر سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللہ مامون کی سزائے موت میں نرمی برتتے ہوئے اسے پانچ برس قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ تینوں ملزمان پر گزشتہ سال طلبا تحریک کے دوران 1400 افراد کے قتل، عوام کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے کے بعد بنگلادیش میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوگیا ہے، جب کہ عوامی لیگ کی قیادت اسے ریاستی اداروں کی سیاسی مداخلت قرار دے رہی ہے۔ دوسری جانب حکومتی حلقے اسے قانون کے مطابق کیا جانے والا عمل قرار دے رہے ہیں، جس سے مستقبل میں ملک کے سیاسی اور قانونی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔