خیبرپختونخوا حکومت کی عدم دلچسپی، اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر

خیبرپختونخوا حکومت کی عدم دلچسپی، اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر

(عارف خان)

خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات میں ناقص حکمت عملی اور مناسب مالی انتظامات نہ ہونے کے باعث ہر سال اربوں روپے غیر ضروری اخراجات پر صرف کئے جا رہے ہیں، جامعات میں ریسرچ سے زیادہ بجٹ بھرتیوں اور غیر ضروری اقدامات کے لئے مختص کئے گئے ہیں،ضرورت سے زیادہ سیاسی بنیادوں پربے تحاشہ بھرتیاں، پنشن، تنخواہوں اور دیگر ایڈیشنل الائونسز کی مد میں آدھے سے زیادہ بجٹ خرچ ہو رہا ہے،صوبے کی بیشتر یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی فنڈز نہیں ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے تین ہزار ملین مختص کرنے کے باوجود بھی فنڈز فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں،فنڈز نہ ہونے کے باوجود صوبے کی بیشتر یونیورسٹیوں میں سال2023-24کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جن میں فیکلٹی سے لیکر انتظامی آفیسرز اور دیگر سٹاف شامل ہیں، جبکہ سال 2023-24کے دوران ویزٹنگ فیکلٹی، کنٹیجنسی سٹاف اور دیگر اقدامات پر بیشتر یونیورسٹیوں نے تین ارب سے زائد خرچ کئے ہیں، صوبے کی بیس جامعات مالی خسارہ کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات میں مالی خسارے، گورننس اور دیگر مسائل کی نشاندہی اور حل سے متعلق گورنر سیکرٹریٹ کی رپورٹ جس میں جامعات کی گزشتہ تین سالوں کی مالی اور انتظامی اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے کے مطابق صوبے کی جامعات مالی خسارہ میں ہونے کے باوجود گزشتہ تین سالوں کے دوران بھرتیوں کے عمل میں تیزی آئی ہے گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے بھر کی جامعات میں ایک ہزار سے زائد ملازمین کو بھرتی کیا گیا ہے جس کے باعث فیکلٹی اور سٹاف کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، سال2021-22کے دوران صوبے کی جامعات میں پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی اکیڈمک سٹاف کی تعداد 4963تھی جبکہ گریڈ17سے گریڈ22کے نان اکیڈمک ملازمین کی تعداد 1482جبکہ گریڈ6سے گریڈ16تک ملازمین کی تعداد 5892تھی تاہم سال 2022-23میں پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی فیکلٹی کی تعداد بڑھ کر 5ہزار295ہوگئی، جبکہ گریڈ17سے گریڈ22تک نان اکیڈمک سٹا ف کی تعداد 1602ہو گئی اسی طرح سال2023-24کے دوران پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی فیکلٹی کی تعداد بڑھ کر 5916ہو گئی جبکہ گریڈ17سے گریڈ22نان اکیڈمک ملازمین کی تعداد بھی بڑھ کر 1755ہوگئی،گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے کی جامعات میں 600سے زائد پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی فیکلٹی کو بھرتی کیا گیا، اسی طرح گریڈ17سے گریڈ22کے 120آفیسر، گریڈ6سے گریڈ16تک 274ملازمین جبکہ 256لوئر سٹاف گزشتہ ایک سال کے دوران بھرتی کئے گئے ہیں۔
مالی خسارے کے باوجود صوبے کی27جامعات نے اپنے بجٹ کا 50فیصد تنخواہوں اور پنشن کی مد میں خرچ کیا ہے اسی طرح جامعات میں ریسرچ کے مقابلے میں غیر ضروری اقدامات سمیت ویزٹنگ فیکلٹی، تھیسز سپروائزراور کانٹیجنسی سٹاف کی مد میں ایک سال کے دوران تین ارب بیس کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ جبکہ ریسرچ پر ایک ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، سال 2021-22میں غیر ضروری اقدامات سمیت ویزٹنگ فیکلٹی، تھیسز سپروائزراور کانٹیجنسی سٹاف کی مد 2ہزار215ملین،سال 2022-23میں اخراجات بڑھ کر 2ہزار856ملین روپے گئے جبکہ سال 2023-24میں 3ہزار287ملین روپے خرچ کئے گئے، واضح رہے یہ اخراجات اس بجٹ کے علاوہ تھے جو کہ یونیورسٹیوں کے لئے مختص کیا گیا ہے، ویزٹنگ فیکلٹی کی تعیناتی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے واضع کردہ تناسب کے برعکس کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق صوبے کی20جامعات کو شدید مالی خسارہ کا سامنا ہے، سال2023-24کے دوران انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور کو 977ملین کا خسارہ تھا اسی طرح گومل یونیورسٹی ڈٖی ائی کو434ملین، زرعی یونیورسٹی پشاور کو187ملین، پشاور یونیورسٹی کو 469ملین یونیورسٹی اف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کو17ملین، باچاخان یونیورسٹی چارسدہ، یونیورسٹی اف صوابی، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل سمیت دیگر شامل ہیں جن کو رواں سال مالی خسارے کا سامنا ہے،صوبے کی 18یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کو وفاق کی جانب سے ملنے والے گرانٹ میں ہر سال کمی کی جارہی ہے جبکہ بیشترجامعات کو وفاق کی جانب سے گرانٹ فراہم ہی نہیں کی جارہی ہے،، نئے بننے والی یونیورسٹیوں کو فیڈرل گرانٹ نہ ملنے کی بڑی وجہ ایچ ای سی کی مشروط کے بغیر یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے جامعات کے لئے تین ہزار ملین گرانٹ میں سے اب تک کچھ ہی جامعات کو گرانٹ فراہم کی گئی ہے جن میں زرعی یونیورسٹی پشاور کو 75ملین، پشاور یونیورسٹی کو 425ملین، انجینئرنگ یونیورسٹی150گومل یونیورسٹی100ملین فراہم کئے گئے ہیں تاہم گزشتہ دنوں زرعی یونیورسٹی کی جانب سے ایک بار پھر صوبائی حکومت کو فنڈز فراہم کرنے سے متعلق خط ارسال کیا گیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے پاس ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں اس لئے فنڈز فراہم کئے جائے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *