سینئر صحافی حامد میر نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا فیصلہ کوئی غیر متوقع کارروائی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی حکومت کئی بار اشارے دے چکی ہے کہ تحریک انصاف اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، پابندی کی بات پہلے بھی ہوچکی ہے۔
مزید پڑھیں: جلسہ کرنا تحریک انصاف کا آئینی حق ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
حامد میر نے مزیدکہاکہ 2022میں وزیراعظم شہباز شریف اقتدار میں آئے تو اس وقت بھی یہ بات ہورہی تھی اور گزشتہ سال 9مئی کے بعد بھی یہ باتیں بہت ہوئیں تاہم حکومت کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے تحریک انصاف کیخلاف ریفرنس فائل کیا تو اس وقت عارف علوی ایوان صدر میں موجود تھے اور وہ ریفرنس کو آگے نے بھجوائیں گے۔
سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ چونکہ اب صدر عارف علوی صدر نہیں رہے تو بظاہر نظر آتا ہے کہ کل نوازشریف کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کا مری میں جو اجلاس ہوا ، تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ وہیں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ، تحریک انصاف نے بڑا اعلان کر دیا
اس سے قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پی ٹی آئی کا کیس سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا، بہت واضح ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے، حکومت تحریک انصاف پر پابندی کے لئے کیس دائر کرے گی۔ پاکستان اور پی ٹی آئی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہذا پی ٹی آئی پرپابندی لگانے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سابق صدر عارف علوی، بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس چلانے کیساتھ سخت ترین کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تینوں افراد کے خلاف وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد ریفرنس سپریم ورٹ کو بھجوایا جائے گا، ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ضبط کیے جائیں گے، جس کیلئے پارلیمان سے قرارداد منظور کی جائے گی
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بیٹھ کر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے بھی پاسپورٹ بلاک کیے جائیں گے۔ عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ 2014 کے دھرنوں کے بعد سے آج تک ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھایا جارہا ہے ، انہوں نے ہمیں کمزور سمجھا اور گالی دینے کا کلچر پھیلایا گیا اور یہ کہا گیا میں وہ ہوں جس کے کارکنان اپنے باپ کی بھی نہیں سنتے، اسلامی ٹچ اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔