خیبر پختونخوا ایپکس کمیٹی نے صوبے میں دہشتگردوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی پر اتفاق کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دہشتگرد ہر روپ میں قابل مذمت ہیں اور انکے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے گی۔
خیبر پختونخوا ایپکس کمیٹی کا اجلاس آج منعقد ہوا اور ایپکس کمیٹی کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائیگیاور اس سلسلے میں پولیس کو وزیر اعلیٰ نے احکامات دیئے ہیں کہ اگر کوئی بھی مسلح غیر سرکاری شخص پایا گیا تو اسے گرفتار کر کے اسکے خلاف بھر پور قانونی کاروائی کی جائے گی۔ مزید براں، کسی بھی غیر سرکاری مسلح گروہ کے دفاتر ، اڈے یا چیکنگ غیر قانونی ہے اور انکے خلاف پولیس بلا تفریق ایکشن لے گی۔ یہ امر تمام صوبے کیلئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پابندی کے حوالے سے وفاقی حکومت کے پاس میٹریل موجود ہے، اعظم نذیر تارڑ
آپریشن کے متعلق عسکری اداروں نے واضح بتا دیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں اس لئے صوبے میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔ مقامی طور پر دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائی پولیس اور سی ٹی ڈی کرے گی جس مقصد کیلئے انکی استعداد بشمول نفری، گاڑیاں، بکتر بند ، آتشیں ہتھیار بڑھائی جارہی ہے۔ البتہ کچھ علاقوں کی نوعیت، جغرافیہ اور بارڈر سے نزدیکی ایسی ہے کہ افواج پاکستان کی مدد کے بغیر کاروائی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حالات کے مطابق کاروائی کی جائے گی تا وقتہ کہ CTD اور دیگر اداروں کی استعداد اس قابل ہو سکے۔پولیس کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ فوری طور پر باقاعدہ اور ہمہ وقت گشت کو یقینی بنائے اور موجودہ نفری اور گاڑیوں سے تمام صوبہ بشمول جنوبی اضلاع کو ترجیحی بنیادوں پر اضافی مدد فراہم کرے۔ نئی آسامیوں کی تخلیق میں بھی ان تمام علاقوں کو ترجیح دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہےگا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان حکام نے تاجروں کو شناختی کارڈ پر افغانستان میں داخلے سے انکار کردیا
مشکوک علاقہ جات و مدارس پر کاروائی سی ٹی ڈی کی ذمہ داری ہے اور یہ کاروائی سی ٹی ڈی کرے گی۔ چونکہ سرحدی قبائلی اضلاع کے عوام مقامی قبائل کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتے ہیں جسکے لیئے مختلف سر حدوں پر نقل و حرکت ہوتی رہی ہے۔ جیسے کہ طور خم ، خرلاچی ، انگور اڈہ۔ اس طرح غلام خان اور باجوڑ و مہمند کے روایتی بار ڈرز پر بھی تجارت کی اجازت دی جائے ( اس سلسلے میں کیسی وفاقی حکومت کے پاس پہلے سے پیش ہے )۔ اس سے مقامی روز گار ملے گا اور خوشحالی بھی آئے گی اور قانونی کاروبار سے سمگلنگ کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اور محصولات میں بھی آمدن ہو گی۔عوام اور اداروں کے مابین بعض اوقات غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جن کا فوری اور مقامی حل نہایت ضروری ہے۔ ہر کمشنر کی سطح پر کمیٹیاں مقرر ہونگی جن میں عوامی نمائندے ، سول ، عسکری اور پولیس کے نمائندے ہونگے جو ایسے کسی بھی واقعہ یا مسئلہ پر فوری جرگہ بلائیں گے اور قابل عمل حل نکالیں گے۔ تاکہ عوام اور تمام ادارے ملکی امن اور ترقی کیلئے ہم آہنگی سے مشترکہ لائحہ عمل بنا کر آگے بڑھ سکیں۔ ایسی کمیٹیاں ضلعی سطح پر بھی تشکیل دی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
بنوں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کیلئے عدلیہ کو درخواست دی جائے گی۔ تاہم حکومت اپنی انکوائری بھی کرائے گی اور ذمہ داران کا تعین کرے گی۔
اپیکس کمیٹی کی رائے میں پر امن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سب کا یہ فرض ہے کہ قانون اور ضابطہ اخلاق کی پاسداری ہو ۔ لاقانونیت اور پر تشدد احتجاج سے گریز کیا جائے۔ تا کہ دیگر عناصر اس کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہ کرے۔ پاک فوج، پولیس اور دیگر دفاعی ادارں اور عوام نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے لازوال قربانیاں دی ہیں اور اس لئے کسی بھی ایسے غیر جمہوری ایجنڈا اور پراپیگنڈاجس سے ان کی یا ان کے خاندان والوں کی دل آزاری ہو، سے اجتناب کیا جائے۔اس دوران بعض عناصر نے سرکاری اداروں پر بے جا تنقید کی جس سے قربانیاں دینے والے ہمارے جوانوں اور افسران کی دل آزاری ہوئی جو کہ ایک قابل افسوس امر ہے۔ اپیکس کمیٹی کی رائے میں مستقبل میں اس طرح کے رویئے کی گنجائش نہیں۔