بنگلہ دیشی طلبہ نے ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالیں جبکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو مظاہرین پر کیے گئے پولیس کریک ڈاون کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ سول سروس کے ملازمین کے کوٹے کے خلاف ریلیوں نے جان لیوا فسادات کو جنم دیا تھا، ان فسادات کی وجہ سے حسینہ واجد کے 15 سالہ دور کی بدترین بے امنی پیدا ہوئی جس میں 200 سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
فوج کی تعیناتی نے مختصر طور پر امن بحال کیا لیکن رواں ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد مسلمان اکثریتی ملک میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، جس کے بعد طلبہ کی طرف سے حکومت پر مزید مراعات دینے کے لیے دباو بڑھ گیا۔
ابتدائی مظاہرے شروع کرنے والے ’امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ‘ گروپ نے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ اتوار سے مکمل عدم تعاون کی تحریک شروع کردیں۔
بنگلہ دیشی طلبہ حسینہ واجد سے ان کے متعدد وزرا کی برطرفی اور گزشتہ ماہ کیے جانے والے تشدد کے لیے عوامی سطح پر معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ حکومت ملک بھر میں بےامنی کے عروج کے دوران بند کیے جانے والے اسکولز اور یونیورسٹیاں کھول دے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر موجود ہجوم نے حسینہ واجد سے استعفی دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
76 سالہ شیخ حسینہ 2009 سے بنگلہ دیش پر حکومت کر رہی ہیں اور انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھی مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
جولائی کے اوائل میں بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے کوٹہ سکیم کو دوبارہ متعارف کرائے جانے کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے جس کے تحت تمام سرکاری ملازمتوں کا نصف سے زیادہ حصہ مخصوص گروپوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان بے روزگار ہیں، اس اقدام سے گریجویٹس کو روزگار کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
کئی ہفتوں سے جاری یہ احتجاج پولیس اور حکومت کے حامی طلبہ گروپوں کی جانب سے مظاہرین پر حملوں سے پہلے تک کافی حد تک پرامن تھا، اس احتجاج کے دوران شیخ حسینہ کی حکومت نے پورے ملک میں کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ فوج بھی تعینات کی اور امن و امان بحال کرنے کے لیے ملک کا موبائل انٹرنیٹ نیٹ ورک 11 دن کے لیے بند کیے رکھا۔
کئی دوسرے مما لک نے شیخ حسینہ کی انتظامیہ کے اس کریک ڈاؤن کی مذمت بھی کی، جبکہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے رواں ہفتے مظاہرین کے خلاف حد سے زیادہ اور مہلک طاقت کے استعمال کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔