امن و امان صورتحال، پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت سے 15 سوالات کے جواب طلب کر لیئے

امن و امان صورتحال، پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت سے 15 سوالات کے جواب طلب کر لیئے

پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورتحال بالخصوص جوڈیشل افسران اور وکلا کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے متعلق صوبائی حکومت سے 15 سوالات کے حوالے سے تفصیلی وضاحت مانگ لی ہے۔

خیبرپختونخوا بار کونسل کی جانب سے صوبے میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال کیلئے دائر درخواست کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا۔

1) کمپلیکس، کورٹس اور بار روم کو کس طریقہ کار کے مطابق سیکیورٹی دی جارہی ہے ؟

2) جو ایس او پیز موجود ہے تو کیا اس پر عملدرآمد ہورہا ہے ؟

3) اگر ایس او پیز موجود نہیں ہے تو پھر صوبے میں کتنے پولیس اہلکار جوڈیشل کمپلیکس اور بار روم کی سیکیورٹی پر مامور ہے ؟

4) پولیس کے پاس سیکیورٹی کے آلات، فنسنگ، سیکیورٹی گاڑیاں، میٹل ڈیکٹرز، بیگز سکینرز کتنی تعداد میں موجود ہے ؟

5) ججز کی رہائشگاہ پر سیکیورٹی کی فراہمی کونسے ایس او پیز کے تحت ہورہی ہے ؟

6) اگر کوئی ایس او پیز موجود ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہے، اگر ایس او پیز نہیں ہے تو پھر کیسے سیکیورٹی دی جارہی ہے ؟

7) پولیس اہلکاروں کے پاس کیا سیکیورٹی کے جدید آلات ہے ؟

8) ججز کی نقل و حرکت کے دوران کیا ایس او پیز موجود ہے اگر ہے تو کیا اس پر عمل ہورہا ہے ؟

9) ججز کی نقل و حرکت کے دوران کتنے پولیس ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں ؟

10) ججز کو سرکاری رہائشگاہوں کی الاٹمنٹ کیا ترجیحی بنیادوں پر ہورہی ہے ؟

11) اگر کسی جج کے پاس سرکاری رہائشگاہ نہیں ہے تو اس کی سیکیورٹی کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ؟

12) حساس علاقوں میں ججز، کورٹس کمپلیکس اور ججز کی رہائش گاہوں کی اضافی سیکیورٹی کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں ؟

13) کیا عدالتوں کی سیکیورٹی کیلئے بین الاقوامی اصولوں کے تحت علیحدہ سیکیورٹی یونٹ ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس کا جواز کیا ہے ؟

14) اگر کہیں پر سیکورٹی لیپس ہو جاتا ہے تو کیا اس کے احتساب کے لئے طریقہ کار موجود ہے ؟

15) اگر طریقہ کار موجود ہے تو کیا اس پر ابھی تک عمل ہوا ہے ؟

پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورتحال بالخصوص جوڈیشل افسران اور وکلا کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے متعلق صوبائی حکومت سے 15 سوالات کے حوالے سے تفصیلی وضاحت مانگ لی ہے اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اس حوالے سے جلد مطلوبہ معلومات فراہم کی جائیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *