اسلام آباد میں 3 لاکھ سے زائد محنت کش کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں، جن کو آئے روز سی ڈی اے کے جارحانہ حربوں کا سامنا ہے۔ ہم نے اس شہر کو بنایا اور سنوارا ہے، ہماری رہائش کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ 10 سال قبل بلڈوز ہونے والے I-11 کچی آبادی کے مکین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، مزید محنت کشوں کو بیگھر نہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار گزشہ روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں وفاقی دارالحکومت کی مختلف کچی آبادی مکینوں نے ہنگامی پریس کانفرنس میں کیا۔
عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں حالیہ سپریم کورٹ میں 10 سال بعد کھلنے والا کچی آبادی کیس تھا جو کہ 2015ء میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں اور کچی آبادی کے نمائندوں کی طرف سے فائل کیا گیا تھا۔ جولائی 2015ء میں اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں 25,000 محنت کشوں پر مشتمل کچی آبادی کو سی ڈی اے اور حکومتِ وقت نے بے دردی سے بلڈوز کیا تھا، جس کے سپریم کورٹ نے مزید کچی آبادیوں کی بے دخلیوں کے خلاف سٹے آرڈر جاری کیا تھا جو کہ تاحال قائم ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیس میں لیڈ پیٹشنر اور عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عاصم سجاد نے کہا کہ 2015ء سے جاری سٹے کے نتیجہ میں اسلام آباد سمیت ملک بھر میں کروڑوں کچی آبادی کے مکینوں کو کچھ نہ کچھ تحفظ رہا۔ تاہم جنوری 2025ء میں سپریم کورٹ نے اس کیس کو پھر سے کھول دیا، جس کی وجہ سے کچی آبادی کے مکینوں میں خوف طاری ہو گیا کہ سٹے آرڈر کو خارج کیا جائے گا۔ ہم سپریم کورٹ سے مخاطب ہو کر جج صاحبان کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ رہائش کے بنیادی حق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔
کچی آبادیوں میں رہنے والے کڑوروں افراد اسلام آباد جیسے شہروں کو ناصرف اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرتے ہیں بلکہ حکمرانوں کے گھروں اور دفاتر کو بھی یہی محنت کش چلاتے ہیں۔ لیکن آج دن تک سی ڈی اے اور مختلف حکومتوں نے کبھی ان محنت کشوں کے لیے رہائش کا بندوبست نہیں کیا، جس کی وجہ سے وہ کچے گھر بنا کر زندگیاں گزارتے ہیں۔ انہی کچی آبادیوں کو سرکار‘‘غیرقانونی‘‘ قرار دے کر بلڈوز کرتا ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے والے قبضہ گیروں پر قانون کی لاٹھی چلائی گئی ہو۔
عاصم سجاد نے کہا کہ اسی کو طبقاتی جنگ کہتے ہیں اور سپریم کورٹ نے 2015ء میں اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا کہ کچی آبادی کے مکینوں کو اگر سرکار چھت دے نہیں سکتی تو کم از کم لے بھی نہیں سکتی۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں ہمارے کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ محنت کشوں کو اس بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ 100 سے زائد کچی آبادیوں میں 3 لاکھ سے زائد محنت کشوں کی فریاد سنی جائے۔
کچی آبادیوں کے نمائندوں سیما (عوامی بستی، مہرہ آبادی)، گلزار (آئی ٹین کچی آبادی)، میر اعظم (آئی نائن کچی آبادی)، وارث (رمشا کالونی، ایچ نائن)، ریاض (مظفر کالونی، ایچ الیون) اور رزاق (مہرہ آبادی) نے کہا کہ ہم محنت کش، ہر روز گھر سے روزی روٹی کمانے نکلتے ہیں تو معلوم نہیں ہوتا کہ ہماری غیر موجودگی میں سی ڈی اے یا پولیس آ کر چھاپے ماریں گے، رشوتیں لیں گے حتیٰ کہ گھروں کو ہی مسمار کر دیں گے۔ عجیب بات ہے کہ جب حکمرانوں اور کوٹھی والوں نے ہم سے کام اور ووٹ لینا ہوتا ہے تو ہم قانونی ہو جاتے ہیں مگر اچانک ہمیں خطرناک غیر قانونی حتیٰ کہ دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے اور ہماری تمام جمع پونجی کو ملیامیٹ کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پر امن طور پر مزاحمت کرتے رہیں گے کیونکہ ان کچے مکانوں میں اپنے اور بچوں کا سر چھپانا ہمارا بنیادی انسانی حق ہے۔ مگر ایسا نہ ہو کہ سٹے آرڈر کی شکل میں جو سپریم کورٹ کی طرف سے تھوڑا سا تحفظ موجود تھا وہ خارج ہو جائے تو پھر سی ڈی اے اور دیگر حکام ایک دن بھی نہیں رہنے دیں گے کیونکہ یہ شہر کی تمام زمینیں پراپرٹی ڈیلرز کو حوالے کرنا چاہتے ہیں جو کہ سٹہ بازی اور منافع خوری کرتے ہیں اور اگر سپریم کورٹ نے بھی ہمیں لاوارث چھوڑ دیا تو ہم سمجھیں گے کہ قانون کا نام لینے والا ہر ادارہ محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ پراپرٹی ڈیلرز کی سرپرستی کرتا ہے۔