اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگردوں کو نہ صرف جائے پناہ دے رکھی بلکہ وہ ان کی سرحد پار حملوں میں سرپرستی بھی کر رہی ہے، اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی سب سے بڑی دہشتگرد تنظیم ہے جس کی چھتری تلے باقی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔
پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے طالبان حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سرحد پار کیے جانے والے حملوں کی حمایت کر رہی ہے بلکہ اس میں ملوث بھی ہے، اس حوالے سے ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں ۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے کام کرنے والے دیگر عسکریت پسند گروہوں بشمول بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور ماجد بریگیڈ کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ گروہ مربوط حملوں کے ذریعے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے افغانستان میں 20 سے زیادہ دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان دولت اسلامیہ کی خراسان شاخ (آئی ایس کے) کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں، لیکن ان کی کوششیں بڑی حد تک غیر مؤثر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ زیادہ مؤثر طریقے سے نہیں، جیسا کہ افغانستان میں داعش کی جانب سے کیے جانے والے متعدد حملوں کے ساتھ ساتھ کرمان، ایران، ماسکو، روس اور حال ہی میں پشاور، پاکستان میں اس کے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی القاعدہ اور داعش کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 35 ویں رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی افواج نے داعش کی اپنی سرحدوں میں دراندازی کی کوششوں کو کامیابی سے ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے کابل ہوائی اڈے پر 2021 میں ایبی گیٹ بم دھماکے میں ملوث افغان شہری محمد شریف اللہ سمیت داعش کے متعدد ہائی پروفائل کارندوں کو حراست میں لیا ہے۔
منیر اکرم نے دلیل دی کہ اس کے باوجود، طالبان دیگر عسکریت پسند گروہوں، خاص طور پر القاعدہ اور ٹی ٹی پی کی طرف سے درپیش خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی طاقت اور بیرونی حمایت
منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کو فوری طور پر سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اس کے جنگجو افغان سرزمین کو حملوں کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سفیر نے کہا کہ طالبان کی جانب سے اس گروپ کی مسلسل سرپرستی نے اسے علاقائی عسکریت پسند تنظیموں کے وسیع تر اتحاد میں تبدیل ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ’ٹی ٹی پی، جسے کابل کی سرپرستی حاصل ہے، تیزی سے علاقائی دہشتگرد گروہوں کی سرپرست تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے جس کے مقاصد افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔
انہوں نے ٹی ٹی پی پر بیرونی مالی اعانت اور حمایت حاصل کرنے کا بھی الزام عائد کیا، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی ہی حمایت اور سرپرستی کون کر رہا ہے۔
پاکستانی سفیر نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد چھوڑے گئے ہتھیاروں پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے کچھ ہتھیار سرحد پار حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے ضبط کیے گئے ہیں۔
انہوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ہتھیاروں کو دہشتگرد گروہوں سے بازیاب کرائیں، انہوں نے کہاکہ ہماری سیکیورٹی اور سرحدی فورسز نے غیر ملکی افواج کی طرف سے چھوڑے گئے اسٹاک سے افغان حکام کی طرف سے حاصل کردہ کچھ جدید ہتھیار ضبط کر لیے ہیں۔ منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشتگرد تنظیموں پر قابو پانے اور افغانستان کو علاقائی اور عالمی حملوں کا مرکز بننے سے روکنے میں ناکامی پر طالبان کا احتساب کرے۔