ٹرمپ کی تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کوئی ملک قبول کرے نہ کرے، مجبور نہیں کرسکتے، امریکی محکمہ خارجہ کا بھارتی صحافی کو جواب

ٹرمپ کی تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کوئی ملک قبول کرے نہ کرے، مجبور نہیں کرسکتے، امریکی محکمہ خارجہ کا بھارتی صحافی کو جواب

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر دی ہے لیکن کسی بھی فریق کو اس پیشکش کو قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہر ایک کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت عالمی سطح پر ٹرمپ کی ثالثی کی کوششوں کو جھٹلانے لگا

 امریکی محکمہ خارجہ کی  ترجمان ٹیمی بروس سے پریس بریفنگ کے دوران ایک بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ بھارت کی جانب سے تنازع کشمیر پر بار بار ثالثی کی پیشکش سے انکار کیا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی جانب سے کسی تنازع میں ثالثی کی پیشکش کرتے ہیں اور یہ اس ملک پر منحصر ہے کہ وہ ان کی مدد یا ثالثی کی پیشکش کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، وہ کسی ملک کو اس پر مجبور نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی یہ وضاحت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا میں دو جوہری ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن بھارت اس کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے کشمیر کو ’ہزار سال پرانا‘ تنازع قرار دیا ہے اور حالیہ ہفتوں میں متعدد مواقعوں پر سر عام اس کے حل میں مدد کی پیش کش کی ہے۔ تاہم بھارت اپنی دیرینہ ہٹ دھرمی پر قائم ہے کہ کشمیر ایک دو طرفہ معاملہ ہے جس میں تیسرے فریق کی شمولیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی میں ثالثی کی پیشکش کردی

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے بھارتی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں کسی دوسرے ملک کی فیصلہ سازی کی نوعیت کے بارے میں بات نہیں کروں گی۔ یہ اس پر منحصر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک دلچسپ دور میں رہتے ہیں جہاں ہمیں ایک ایسا شخص ملا جو اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے اور وہ اس کے لیے فراخدلی سے کام لینے کے لیے تیار ہے۔ وہ اپنی مدت امن اور امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کے علاوہ کسی اور کام کا انتخاب کر کے پوری کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا وہ اپنے پرامن مقصد پر قائم ہیں۔

ٹیمی بروس کا تبصرہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ امریکا ثالثی کو ایک دستیاب آپشن کے طور پر دیکھتا ہے نہ کہ اسٹریٹجک ضرورت کے طور پر دیکھتا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارادوں کی ان کی پرجوش حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہاؤس اس معاملے میں مسلسل دلچسپی لے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی دوسرے ملک کی فیصلہ سازی کی نوعیت کے بارے میں بات نہیں کروں گی۔ یہ اس پر منحصر ہے، لیکن، میرے خیال میں، ہم سب کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو مدد کرنے کے لیے تیار ہے، اور مدد کرنا چاہتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے یہ ریمارکس کسی بھی فریق پر دباؤ نہ ڈالنے سے متعلق وضاحت ہیں، لیکن یہ خطے میں تناؤ کو کم کرنے میں مدد کرنے کی امریکا کی مستقل خواہش کی نشاندہی کرتے ہیں – بھلے ہی بھارت امریکی پیشکش کو قبول نہ کرے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *