امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر براہ راست حملے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے تاہم اس کے لیے حتمی حکم جاری نہیں کیا، ابھی وہ متعدد آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
وال اسٹریٹ جنرل نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی رات اپنے سینیئرمعاونین کو بتایا کہ انہوں نے ایران پر حملوں کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے لیکن وہ فی الحال حتمی حکم نہیں دیا کیوں کہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا تہران اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے گا یا نہیں۔
وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکا کا اصل ہدف ایران کی فورڈو یورینیم افزودہ کرنے والی تنصیب ہو سکتی ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ یہ ایک پہاڑ کے نیچے انتہائی گہرائی میں ہے اور عام طور پر فوجی ماہرین اسے سب سے طاقتور بموں کے علاوہ سب کی پہنچ سے باہر سمجھتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ٹرمپ نے کہا کہ ہاں ’میں یہ کر سکتا ہوں‘، اورمیں یہ نہیں بھی کر سکتا‘۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ایران غیرمشروط طور پر ہتھیارڈالنے پر رضا مند ہوجائے، وال اسٹریٹ جنرل کے مطااگلا ہفتہ بہت بڑا ہونے جا رہا ہے، شاید ایک ہفتے سے بھی کم۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ان کا ملک ہتھیار نہیں ڈالے گا اور خبردار کیا تھا کہ کسی بھی امریکی فوجی مداخلت کے ناقابل تلافی نتائج برآمد ہوں گے۔
حالیہ دنوں میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنی افواج میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی بحریہ کا تیسرا تباہ کن بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم میں داخل ہوا ہے اور دوسرا امریکی جنگی جہاز بحیرہ عرب کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اگرچہ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ فوج کی تیاری خالصتاً دفاعی ہے لیکن اگر ٹرمپ ایران پر اسرائیلی حملوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھرامریکا کچھ بھی کر سکتا ہے ممکن ہے کہ یہ ایران پر دباؤ ڈالنے یا رعایتیں دینے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق اسرائیل اور ایران کے درمیان میزائلوں کی فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے اور ایران میں شہادتوں کی تعداد 450 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسرائیل میں ایرانی حملوں کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔